شہریار محسود
اس وقت قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے مشران اور جوانوں پر مشتمل جرگہ اسلام آباد میں مختلف سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کررہے ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں لوگوں کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔
جنوبی وزیرستان کے مشران پر مشتمل جرگہ ٹیم کے اہم رکن جاوید شوبی خیل نے جرگے کے مقاصد کے حوالے سے بتایا کہ ہمارے محسود علاقے کے لوگوں کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ آپریشن راہ نجات میں تباہ ہوئے گھروں کا معاوضہ فوری طور پر ادا کیا جائے اس کے علاؤہ جرگہ مطالبات کو تحریری شکل دے رہا ہے جس میں سابقہ فاٹا میں ہونے والے تمام نقصانات کے فوری ازالے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سابقہ فاٹا کے علاقوں میں لوگوں کے کاروبار کا ذریعہ نہ ہونے کے برابر تھا اور جو کاروبار بارڈرز پر ہورہا تھا اس پر بھی پابندیاں اور قدغنیں عائد کی گئیں جس سے لوگوں کے معاشی حالات مزید بگڑ گئے اور مشران اس حوالے سے بھی اعلیٰ حکام کے سامنے مطالبہ رکھیں گے تاکہ لوگوں کے اقتصادی حالات تھوڑے بہت بہتر ہو سکیں۔
جاوید شوبی خیل کے مطابق ہمارے محسود علاقے کے اسی ہزار گھروں کے سروے ہوئے ہیں اور ہمارے محسود قوم کی طرف سے بنیادی مطالبہ متاثرین کو فوری پیسے دینے کا ہوگا لیکن بنیادی مطالبات قبائلی علاقوں کے دیگر مشران کی مشاورت کے بعد تحریری شکل میں آئیں گی۔
بدقسمتی سے پاکستان میں سابقہ قبائلی علاقوں میں دہشتگردوں کی موجودگی پر تو بات ہوتی آئی ہے لیکن بات کرنے والوں کی اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ اب تک یہاں آپریشنوں کے نام پر کیا کچھ ہوا ہے؟
2002 سے 2006 تک المیزان کے نام سے آپریشن کیا گیا لیکن بجائے اس کے کہ دہشت گردی میں کمی آتی، دہشت گردی میں مزید اضافہ ہوا عام لوگوں کے املاک کو نقصان پہنچا لیکن ازالہ کیا ہوتا عوام کو مزید تکالیف کے حوالے کیا گیا۔
2008 میں آپریشن زلزلہ جنوبی وزیرستان میں شروع کیا گیا جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے جس کے بعد جنوبی وزیرستان میں ہی اب تک کا سب سے بڑا آپریشن راہ نجات 2009 میں شروع کیا گیا جو مسلسل آٹھ نو سال تک جاری رہا۔ راہ نجات میں لوگوں کے گھر ملیامیٹ ہوئے لیکن تاحال لوگوں کے نقصانات کا ازالہ نہیں کیا جا سکا۔
2009 میں ہی مہمند ایجنسی میں آپریشن بریخنا کے نام سے آپریشن شروع کیا گیا جو 2012 تک جاری رہا۔ یہاں بھی طاقت کا استعمال تو کیا گیا لیکن عام عوام کے نقصانات کا ازالہ پوری طرح سے نہیں کیا گیا بلکہ اگر کہا جائے کہ ازالہ ہوا ہی نہیں تو غلط نہ ہوگا۔
2014 میں خیبر ایجنسی میں خیبر ون کے نام سے شروع کیا جانے والا آپریشن 2017 تک جاری رہا اور اس دوران وہاں کے عام لوگوں پر کیا کچھ گزرا پاکستان کی طاقتور آوازوں کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں البتہ آپریشن کی وجہ سے عام لوگوں کے املاک کو پہنچنے والے املاک کے ازالے کا لوگ آج بھی مطالبہ کررہے ہیں۔
پاکستان میں میڈیا کی سب سے زیادہ توجہ پانے والا آپریشن ضرب عضب جون 2014 میں شروع ہوا۔ اس آپریشن میں حیران کن طور پر میران شاہ اور میرعلی کے بازاروں کو بھی بلڈوز کردیا گیا۔ میران شاہ اور میرعلی بازار کی مارکیٹوں اور دکانوں میں یہاں کے سینکڑوں افراد کے اربوں روپوں کا سرمایہ بھی بلڈوز کردیا گیا لیکن تاحال ان نقصانات کا ازالہ نہیں کیا گیا۔ یہاں جب جرگے منعقد ہوتے ہیں تو اکثر ایک سوال کیا جاتا ہے کہ ہمارے گھر اور مارکیٹ بھی دہشت گرد تھے جو یہ حالت کردی گئی؟
آخری نمایاں آپریشن 2017 میں ردالفساد کے نام سے شروع کیا گیا جس کے اختتام کا کوئی آفیشل اعلان اب تک نہیں کیا گیا مگر ایک بات طے ہے کہ پاکستان میں معاشرتی طور پر بھی تخریب کو توجہ ملتی ہے لیکن تعمیر کو نہیں کیونکہ اب تک ان نقصانات کے حوالے سے پاکستان کی مین سٹریم میڈیا میں موجود مظبوط آوازیں خاموش ہیں۔ ایسا کیوں ہے ؟ حالانکہ یہی مظبوط آوازیں یہاں کے ہر خبر پر تبصرے کرکے بڑے باخبر صحافی بھی کہلاتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ ان سوالات کا جواب کوئی نہیں دینے والا البتہ ایک نتیجہ ہم بتا دیتے ہیں کہ قبائلی عوام کی اکثریت کا ریاست اور ریاستی حکام پر اعتماد نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔
بدقسمتی سے عام پاکستانی معاشرے میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ قبائلی علاقوں میں بارڈرز پر سمگلنگ وغیرہ ہوتی ہے جبکہ زمینی حقائق یہ ہے کہ ان بارڈرز تک سیویلینز بغیر اجازت کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے۔
پچھلے سال کی گرمیوں میں روزانہ سینکڑوں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں مبینہ طور پر براستہ انگور اڈا مکین رزمک اور اس کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں پہنچائی جاتی تھیں اور مکین لدھا سمیت مختلف پولیس چیک پوائنٹس پر ان سے مقرر بھتہ لیا جاتا تھا اور بعض علاقے ایسے تھے جہاں پولیس اہلکار راستے میں کھڑے ہوکر ان کے اصطلاح میں ٹوکن وصول کیا کرتے تھے۔ میں نے اس حوالے سے اس وقت کے ایک اعلیٰ پولیس افسر سے سوال پوچھا تھا کہ یہ تو بہت بڑی زیادتی ہو رہی ہے اور پولیس بجائے کہ روک تھام کریں حصہ لے رہی ہے کھلے عام تو انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ انگور اڈا کس کے کنٹرول میں ہے ؟ روزانہ انگور اڈا پر یہ سینکڑوں گاڑیاں کیسے اندر آجاتی ہیں؟ کیا پولیس یہاں (وزیرستان) اتنی اہم ہوتی ہیں جو اس کی روک تھام کر سکے؟
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دور ائرکنڈیشن کے کمروں میں بیٹھ کر قبائلی علاقوں پر تبصرے فرمانے والوں کو یہاں کے زمینی حقائق بھی تھوڑے بہت جان لینے چاہیے اور جاننے کے بعد ایمانداری کے ساتھ بات بھی کرنی چاہیے۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ قبائلی علاقوں کے متاثرہ لوگوں کو ان کے نقصانات کا فوری ازالہ کیا جانا چاہیے تاکہ غربت اور بے روزگاری کا شکار غیر جانبدار طبقہ کسی غلط راستے کا انتخاب نہ کریں اور اگر ایسا کریں گے تو ریاست اور ریاستی اداروں پر عوام کے اعتماد کی بحالی میں بھی مدد ملے گی جو کہ میری نظر میں بنیادی اور سنگین مسئلہ ہے۔