کیا سابقہ فاٹا پھر سے فاٹا بنے گا؟

شہریار محسود
اس وقت پاکستان میں کچھ چیزیں بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ تبدیلی کا یہ سفر کتنے عرصے تک برقرار رہے گا یا پہلے کی طرح حالات ایک دو ماہ بعد واپس پرانے ڈگر پر آجائیں گے۔

جہاں ڈالر کی قیمت نیچے لانے کے لیے منظم کام ہوا وہیں دوسری جانب وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بتایا کہ آرمی چیف بارڈر سمگلنگ میں ملوث اہلکاروں کو کورٹ مارشل کے ساتھ جیل بھیجنے کا بھی عہد کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ سول انتظامی مشینریز کو بھی اٹھانے کی کوششیں دکھائی دے رہی ہیں لیکن یہ بھی کتنی پائیدار ثابت ہوں گی اس کا جواب وقت ہی بتائے گا۔ ایک بات ہے کہ پاک افغان بارڈر پر آنے والی تبدیلی کی رفتار کچھ زیادہ ہی تیز دکھائی دے رہی ہے۔

گزشتہ ہفتوں میں پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں غیر معمولی اضافے کے بعد افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں نمایاں تبدیلی کے آثار دکھائی دے رہے لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ یہ تبدیلی بھی وقتی ہے یا پھر یہ پالیسی بھی مستقلاً بدل رہی ہے۔

اوپر بیان کئے گئے مختلف معاملات کے ساتھ موجود سوالات میں ہمارے گزرے کل کی عکاسی موجود ہے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں پالیسی اشخاص کے زیر سایہ چلتی ہے اور ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہم پالیسیاں جلد ہی بدل دیتے ہیں۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس وقت پاکستان کو اپنی تاریخ کے بدترین حالات کا سامنا ہے اور معمولی غلطی سے بھی غیر معمولی نقصانات ہوسکتے ہیں۔

ان تمام چیزوں کو غور سے دیکھ کر سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ان کا ہر پہلو کہیں نہ کہیں افغانستان اور اس کی سرحد سے ملحقہ سابقہ فاٹا سے جڑا ہوا ہے۔ سابقہ فاٹا کی بات کی جائے تو وزیرستان بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے سو،ہم ایک نظر حالیہ عرصے میں اس علاقے میں آنے والی ایک اہم تبدیلی پر ڈال لیتے ہیں۔

6جون 2023 کو شمالی وزیرستان میں فقیر آف ایپی کے جانشین حاجی شیر محمد کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شہید کردیا تھا جس کے بعد وزیرستان میں غم و غصے کی لہر میں خاصا اضافہ ہوا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد رزمک میں اتمانزئی قوم کے نام پر جرگے کا انعقاد شروع کیا گیا جس میں لوگوں کی کثیر تعداد شامل ہوئی۔

لوگوں کی شمولیت کی ایک خاص وجہ حاجی شیر محمد کا قتل بھی تھا اور دوسری طرف جرگہ میں جس طرح کے اعلانات ہوئے انہوں نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ان اعلانات میں ایک بنیادی بات یہ تھی کہ اتمانزئی قوم کا کوئی بھی جرگہ مشر یا ملک اعلی حکومتی اہلکاروں کے ساتھ نہ تو مل سکے گا اور نہ بطورِ قوم ہم کوئی تعاون کریں گے۔ اس وقت بدقسمتی سے چند پالیسیوں کی برکت سے یہاں حالات ایسے بنے ہیں کہ حکومت کے خلاف جتنا سخت بیانیہ میدان میں پھینکا جائے گا لوگ اسی قدر اس میں دلچسپی لیں گے۔

4اگست کو جرگے نے ایک اعلامیہ جاری کیا، جن میں سے کچھ نکات پیش کیے جارہے ہیں۔

(1) سب سے پہلا مطالبہ امن کا ہے، امن کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے

(2)پہاڑوں میں بیٹھے (یعنی ٹی ٹی پی یا حافظ گل بہادر گروپ)لوگوں سے بھی امن کا مطالبہ کرتے ہیں۔

(3) مذاکرات کی صورت میں حکومت سے صرف اتمانزئی جرگہ ہی مذاکرات کرے گا۔

(4) قومی جرگہ کے علاہ کوئی جرگہ حکومت سے مذاکرات نہیں کرے گا۔

(5)ایک بھائی دوسرے غلط بھائی کا ساتھ نہیں دے گا، خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ عائد ہوگا۔

(6) آج سے قبل اتمانزئی کے مختلف قومیتوں شاخوں یا لوگوں کے درمیان جھگڑے، معاملات وغیرہ حل کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔

(7) آج کے بعد نئی لڑائیاں، جھگڑے، تنازعات پر پابندی ہوگی۔

(8) آج کے بعد شمالی وزیرستان، بکاخیل اور جانی خیل کے حدود کے اندر قتل مقاتلے کی بنیاد پر بدلے نہیں لئے جائیں گے۔ لوگ اتمانزئی جرگے وغیرہ میں بلاخوف و خطر شرکت کرسکیں گے اور گھر آتے جاتے آداب کا ضرور خیال رکھیں۔

(9) بدلہ لینے کی صورت میں 50 لاکھ روپے جرمانہ عائد ہوگا اور گھر بھی مسمار ہوگا۔

اس کے علاؤہ بھی کئی نکات اسٹام پیپر پر لکھے گئے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اگر کسی کو حکومتی اہلکاروں سے کام کے سلسلے میں ملنا ضروری ہوا تو وہ اسسٹنٹ کمشنر اور کرنل کے رینک سے اوپر کے عہدیدار سے نہیں مل سکتے وغیرہ، لیکن ان میں سے بنیادی مطالبہ گراؤنڈ پر پیش نہیں کیا گیا اور وہ ہے مرجڈ علاقوں کو پرانے نظام (پولیٹیکل ایجنٹ)میں واپس لانے کے لیے کیونکہ اگر یہ مطالبہ سامنے رکھا جاتا تو عوامی سطح پر ملنے والی حمایت ختم ہو کر رہ جاتی لیکن مبینہ طور پر سرکاری نمائندوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں یہ مطالبہ شدت کے ساتھ دہرایا جاتا رہا ہے۔

اتمانزئی جرگے میں حالانکہ داوڑ قبیلے کی شرکت جزوی ہے لیکن رزمک میں تین ماہ تک جاری رہنے کے بعد جرگے کو میران شاہ تبدیل کر دیا گیا کیونکہ اس وقت رزمک میں سردی کا موسم آچکا ہے اور یہاں کے زیادہ تر باسی گرم علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔

اتمانزئی جرگے نے جب یومِ سیاہ منانے کا اعلان کیا تب ہم جیسے سوچنے والوں کے ذہنوں میں کئی سوالات ابھرے کیونکہ یوم سیاہ کا اعلان کرنے والے مشران مکمل طور پر ریاست اور ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون کرتے آرہے ہیں اور ان کی طرف سے یوم سیاہ منانا میرے لیے کبھی نہ ماننے کی بات ہوگی مگر جیسے کہ پہلے ہی عرض کیا تھا کہ اب یہاں پر صرف وہی بیانیہ بکتا ہے جو لوگوں کو اعصابی طور پر مطمئن کر سکے۔

اس دوران اتمانزئی جرگے نے ایک گھر جلانے کے ساتھ ایک اور شخص کی فلڈر گاڑی بھی جلائی البتہ ایک بڑا سوال یہاں یہ اٹھایا جارہا ہے کہ وزیرستان میں معمولی نعرے بازیوں پر ایف آئی آر درج ہوجاتے ہیں، پی ٹی ایم کے خلاف حالیہ عرصے میں کئی مقدمات درج ہوئے ہیں، پولیس لوگوں کو گرفتار کرتی آرہی ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنان کے گھروں پر چھاپے مار چکی ہے لیکن ان جرگوں پر قانون لاگو کیوں نہیں ہوتا؟

شمالی وزیرستان میں اتمانزئی جرگے کے بعد جنوبی وزیرستان وانہ میں زلی خیل قبیلے کے مشران پر مشتمل نو کسیز جرگہ عمل میں آتا ہے اور علاقے میں ان کی جارحانہ کاروائیوں کی ابتداء ہوتی ہے۔ دونوں جرگوں نے بنیادی کام مخالف آوازوں کو بند کرنے کے لیے بھاری جرمانوں کے اعلانات کرکے کیا اور یہاں زلی خیل قبیلے کے خلاف مقامی صحافی معراج خالد نے فیس بک پوسٹ کیا کہ کسی کا گھر جلانا درست عمل نہیں ہے اور ریاست کی موجودگی میں ایسا کرنا اور بھی غلط ہے اور یہ کہ سزا اور جزا کا کام ریاست کا ہے نا کہ جرگے یا لشکر کا۔ اسی جرم میں معراج خالد کو کو پانچ لاکھ جرمانہ لانے کے لیے کہا گیا بصورتِ دیگر گھر جلانے کے لئے الٹی میٹم دیا گیا۔ میڈیا کے اس قدر شور شرابے کے باوجود اس جرگے کی طاقت میں کوئی فرق نہیں آیا اور معراج خالد کے خاندان والوں کو علاقہ بدر کر دیا گیا حالانکہ نگران وزیراعلی خیبرپختونخوا نے اس کا سختی کے ساتھ نوٹس لینے کا اعلان بھی کیا تھا۔

ایک ایسے وقت میں جب صحافی معراج خالد کا خاندان علاقہ چھوڑ کر نکل چکے ہیں اب جرگے نے اعلان کیا کہ معراج خالد واپس آسکتاہے۔

ایک بات یہ بھی ہے کہ زلی خیل قبیلے کے اسی جرگے میں اعلان کیا گیا کہ آگے اگر پولیس نے بارڈر سے آنے والے سامان کے خلاف کارروائی کی تو ہم راست قدم اٹھائیں گے اور یہ کہ چیک پوائنٹس پولیس کے بجائے منشیوں کے حوالے کئے جائیں۔

یاد رہے کہ منشی سابقہ فاٹا کے نظام میں بنیادی کردار ادا کرنے والے کلرکوں کو کہا جاتا ہے۔ یعنی ان کو اتنی شہہ مل چکی ہے کہ وہ اس قدر آگے بڑھ کر قدم اٹھا سکتے ہیں۔ صحافی معراج خالد کے حوالے سے تمام جمہوریت پسند طبقے نے آواز اٹھائی مگر حیران کن طور سابقہ ممبر قومی اسمبلی علی وزیر نے مکمل خاموشی اختیار کی اور وانہ آتے ہی نو کسیز جرگے کے مشران کے ساتھ بیٹھک لگائی جو کہ مزید سوالات کا باعث بن رہی ہے کیونکہ علی وزیر کامریڈ ہونے کے ساتھ ڈیموکریٹ بھی کہلاتاہے۔

اگر ہم ان تمام معاملات کو نچوڑنے کی کوشش کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وزیرستان اور سابقہ فاٹا کے لوگوں کو زبردستی ایک ایسے دور میں دھکیلا جارہا ہے جو آج کے نوجوان کی سوچ سے تھوڑی سی بھی مطابقت نہیں رکھتی۔ بدقسمتی سے ایسا کرنے والے یا سوچنے والوں کو اپنی سوچ اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیرستان اور سابقہ فاٹا میں قومی جرگے اور لشکر کافی اہم رہے ہیں لیکن اس دور میں بھی یہاں کے جرگوں اور روایات میں ایک جمہوری سسٹم تھا جہاں اگر گاؤں کا سب سے غریب بندہ بھی کسی کام کی مخالفت کرتا تو ان کے تحفظات دور کرنے تک کاروائی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا نہ کہ کسی کو درست بات کرنے پر خاندان سمیت علاقہ بدر کیا جائے۔

ابتداء میں عرض کیا تھا کہ ہماری نئی سوچ اور تبدیلی کا ہر پہلو کہیں نہ کہیں وزیرستان یا سابقہ فاٹا سے جڑجاتا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ یہاں وزیرستان میں ان کوششوں کے الٹ کیوں ہورہا ہے؟ اور ایسا کیوں ہونے دیا جارہا ہے؟ یقین مانیں اس علاقے میں بسنے والے لوگ ان لوگوں سے بالکل الگ سوچتے ہیں جن کو اس وقت وزیرستان یا سابقہ فاٹا میں نمایاں کردار دیا گیا ہے اور یہی نقصان بھی پہنچا رہا ہے لیکن سوال پھر وہی کہ فیصلہ ساز آخر چاہتے کیا ہیں ؟