ٹیرر ازم سے ٹور ازم تک کے سفر میں درپیش رکاوٹیں

فاروق محسود

جنوبی وزیرستان؛”لوگ کیوں ہمیں دہشتگردی سے جڑے تاثر سے جانتے ہیں؟ جبکہ ہمارے لوگ محبت و پیار کرنے والے،خوبصورت علاقے، ثقافت، اور مہمان نوازی سے مشہور ہیں جوکہ شاید ان لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں’.یہ کہنا ہے جنوبی وزیرستان تحصیل لدھا کے خوبصورت اور تاریخی گاؤں کانیگرم کے رہائشی نوجوان جمشید برکی کاجنہوں نے جنوبی وزیرستان کی خوبصورتی دنیا کو دکھانے کا مشن اپنا رکھا ہے۔

جمشید برکی کا کہنا ہے کہ جب میں کامسیٹ یونیورسٹی ایبٹ آباد میں پڑھنے گیا تو وہاں جب میرا کلاس میں تعارف ہوا اور میں نے بتایا کہ میں جنوبی وزیرستان سے ہوں تو مجھے شروع کے دنوں میں لوگوں کا رویہ مایوس کن لگا اور مجھے عجیب نظرسے دیکھا جاتا تھا۔

جمشید برکی کہتےہیں کہ وہ جگہ جہاں کے لوگ دہشگردی کے خلاف جنگ میں کافی متاثر ہوئے، پیار محبت کرنے والے، محب وطن شہری اور خوبصورت ثقافت رکھنے والے لوگ ہیں،میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ کیوں یہ لوگ ہمیں صرف دہشتگردی والے علاقے سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر جانتے ہیں؟ اس سوال کا جواب جب ڈھونڈا تو پتہ چلا کہ میڈیا پر وزیرستان صرف دہشتگردی کے حوالے سے ہی جانا جاتا ہے اسکے علاوہ وہاں کے بارے میں لوگوں کو کچھ علم نہیں، جس کے بعد میں نے اگست 2018 میں سوشل میڈیا پر وہ لاگز شروع کیے اور دنیا کو وزیرستان کی خوبصورتی، ثقافت، تاریخی مقامات اور تاریخی لوگوں بارے معلومات پر مبنی وی لاگز شروع کیے اور میرے مشن “ٹیررازم سے ٹورازم” کا آغاز ہوا، اس مشن میں مجھے کافی مشکلات کا سامنہ کرنا پڑرہا ہےلیکن مشن بڑا اور حوصلے بلند ہیں۔

جنت نظیر وادیوں، قدرتی چشموں اور گھنے جنگلات، گرمی کے موسم میں بارش کی رم جھم اور سرسبز وادیوں کے خوبصورت نظارے پر مشتمل پہاڑی سلسلے جنوبی وزیرستان کی خوبصورتی کے راز ہیں۔

جنوبی وزیرستان کا علاقہ چھ ہزار چھ سو بیس مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ مغرب میں اس کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے، شمال میں شمالی وزیرستان،مشرق میں خیبرپختون خوا کا ضلع ٹانک اور جنوب میں صوبہ بلوچستان ہے۔جنوبی وزیرستان،رقبے کے لحاظ سے تمام قبائلی اضلاع میں سب سے بڑا ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی 674065 ہے۔گذشتہ سال اکتوبر میں جنوبی وزیرستان کو دو اضلاع اپر اور لوئر وزیرستان میں تقسیم کردیا گیا۔

جنوبی وزیرستان میں چلغوزے اور زیتون کے جنگلات ، شہتوت، چنار، اور میواہ جات کے باغات کے علاوہ شکئی، بدر، شوال، مکین، لدھا، کانی گرم، نیزنرائی، خام رنگ،مسردینہ،گومل زام ڈیم،انگور اڈہ سمیت بہت سارے ایسے علاقے ہیں جہاں کی خوبصورتی ناصرف سیاحوں کی دلچسپی کا سبب بنتی ہے بلکہ یہاں کے مقامی افراد بھی اس کے سحر میں گرفتار ہیں، حکومت اگر تھوڑی توجہ دے تو یہ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کےلئے سیاحتی مرکز بن سکتے ہیں۔

یاراں جہاں کہتے ہیں کہ کشمیر جنت ہے،مگر لاہور سے تعلق رکھنے والی موٹرسائیکل پر سیاحتی ٹورز کرنے والی سیاح عالیہ علی اس شعر کو رد کرتے ہوئے کہتی ہے وزیرستان میں جو خوبصورتی دیکھی وہ بہت کم دیکھنے کو ملی ہے۔

عالیہ علی کہتی ہیں کہ سال 2021 میں اپنے والد کے ہمراہ موٹرسائیکل پر جنوبی وزیرستان سفرکرنے کا پروگرام بنایا تو ہرکسی نے جانے سے منع کیا اور وزیرستان کو سفر کرنا خطرناک بتایا گیا ” جب میں وزیرستان گئی تو وہاں کی جنت نظیر وادیاں، پہاڑ اور سب سے بڑھ کروہاں کے لوگوں نے جس انداز میں ہمیں جگہ جگہ مہمان نوازی دی وہ مجھے کسی اور جگہ بطور سیاح نہیں ملی”

متشدد ماضی کے باعث سیاح جنوبی وزیرستان کےسیاحتی مراکز دیکھنے سے ہچکچاتے ہیں مگر امن کی بحالی اور علاقائی نوجوانوں کی جانب سے علاقے کی خوبصورتی کو سوشل میڈیا کے زریعے دنیا کو دیکھانے(جن میں جمشید برکی خاصے سرگرم ہیں)کے بعد اب دور دراز علاقوں سے سیاح جنوبی وزیرستان کی قدرتی خوبصورتی اور تاریخی مقامات دیکھنے آرہے ہیں، جمشید برکی کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں پہاڑی، میدانی اور ہرطرح کے سیاحتی مراکز ہیں لیکن سب سے بنیادی مسئلہ جو اب درپیش ہے وہ سیاحوں کے لیئے سہولیات کا نا ہونا ہے، چونکہ جنوبی وزیرستان دو دہائیوں سے دہشتگردی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ سے کافی متاثر ہوا ہے جسکی وجہ سے یہاں نہ ہی اچھے ہوٹلز ہیں اور نہ ہی سڑکیں بہتر ہیں کہ جہاں لوگ فیملیز کے ساتھ جاسکیں، جمشید برکی نے بتایا کہ اکثر دوردراز علاقوں سے لوگ آنا چاہتے ہیں لیکن یہاں سہولیات کا فقدان رکاوٹ ہے۔

قبائلی اضلاع کی خیبرپختون خواہ میں انضمام کے بعد سال 2020 میں خیبرپختون خوا ہ حکومت نے ایکسلیریٹڈ پروگرام کے تحت سیاحت وکھیلوں کے فروغ کے لیئے قبائلی اضلاع کے لئے پانچ ارب سے زائد کی خطیررقم مختص کی، لیکن تاحال جنوبی وزیرستان میں کوئی بھی سیاحتی مرکز یا سہولت قائم نہیں کی گئی۔ اس حوالے سے محکمہ سیاحت قبائلی اضلاع کے اہم عہدے دار نے نام نا بتانے کی شرط پربتایا کہ جنوبی وزیرستان میں امن اومان کی صورت حال اور دوسرے علاقائی ملکیتی مسائل کے حل کے بعد اب سیاحتی مقامات کی نشاندہی کےلئے کنسلٹنٹ کمپنی نے چھ ماہ میں تقریبا اپنا کام مکمل کرلیا ہے اور بہت جلد جنوبی وزیرستان میں سیاحتی مقامات پر کام کا آغاز کردیا جائے گا جس سے سیاحوں کے لیئے یہ علاقے مقبول منزل ہونگے۔

جمشید برکی کا کہنا ہے کہ سرسبز وادیاں اور بہتے جھرنے دیکھنے کےلئے جنوبی وزیرستان کے قریب بلوچستان کے علاقے، پنجاب کے ڈیرہ غازی خان، بھکر، میانوالی،تونسہ، ملتان، کے سیاح یہاں آنے کےلئے کہتے ہیں لیکن بہتر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اکثر فیملیز کے ساتھ آنے والے سیاح مایوس ہوجاتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر قدرتی حسن سے لدے جنوبی وزیرستان میں سیاحوں کے لیئے سہولیات پر حکومت نے توجہ دی تو یہاں کی لوگوں کی انتہائی کمزورمعاشی حالت بہتر ہوسکتی ہے اورسیاحت کے فروغ سے روزگار کے نئے مواقع کھل سکتے ہیں۔