چیف جسٹس کے اختیارات کا بل: جائزہ لینا ہے کہ آئینی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی،عمرعطابندیال

چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ کے خلاف دائر درخواستوں پر صدر مملکت ،وزیراعظم اور بارکونسلز کو نوٹسز جاری کئے گئے.

آج بروز جمعرات کو سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل کردہ 8 رکنی لارجر بینچ نے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ کے خلاف دائر 4 درخواستوں پر سماعت کی۔

بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اظہر حسن رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر درخواست گزار راجا عامر کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں یہ مقدمہ بہت اہمیت کا حامل ہے، قاسم سوری کیس کے بعد سیاسی تفریق میں بہت اضافہ ہوا ہے، قومی اسمبلی کی بحالی کے بعد سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوا۔

امتیاز صدیقی ایڈوکیٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کروانے پر آمادہ نہیں، عدالت کو انتخابات نہ کروانے ہر از خود نوٹس لینا پڑا، عدالت نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کروانے کا حکم دیا، 3 اپریل کو عدالت نے دوبارہ انتخابات کروانے کا حکم دیا، آئین پر عمل کرنے کے عدالتی حکم کے بعد مسائل زیادہ پیدا کیے گئے، عدالت اور ججز ہر ذاتی تنقید کی گئی، وزرا اور ارکان پارلیمنٹ اس کے ذمہ دار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجوزہ قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی، دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد بل صدر کو بھجوایا گیا، صدر مملکت نے اعتراضات عائد کر کے بل اسمبلی کو واپس بھیجا، سیاسی اختلاف پر صدر کے اعتراضات کا جائزہ نہیں لیا گیا، مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد 10 روز میں بل قانون بن جائے گا، آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ اپنے رولز خود بناتی ہے۔

ایڈووکیٹ امتیاز صدیقی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بل کے تحت از خود نوٹس اور بینچز کی تشکیل کا فیصلہ 3 رکنی کمیٹی کرے گی، بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا یہ بل قانون بننے کے لائق ہے؟

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ کابینہ کی جانب سے بل کی توثیق کرنا غیر قانونی ہے، بل کابینہ میں پیش کرنا اور منظوری دونوں انتظامی امور ہیں، بل کو اسمبلی میں پیش کرنا اور منظوری لینا بھی غیر آئینی ہے، بل زیر التوا نہیں بلکہ مجوزہ ایکٹ ہے، صدر منظوری دیں یا نہ دیں ایکٹ قانون کا حصہ بن جائے گا، سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کے بغیر سپریم کورٹ کا کوئی وجود نہیں، چیف جسٹس کی تعیناتی سے ہی سپریم کورٹ مکمل ہو کر کام شروع کرتی ہے، چیف جسٹس کے بغیر دیگر ججز موجود ہوں بھی تو عدالت مکمل نہیں ہوتی۔

ایڈووکیٹ امتیاز صدیقی نے مزید کہا کہ چیف جسٹس اور ججز کے اختیارات کم نہیں کیے جاسکتے، چیف جسٹس کا آفس کوئی اور جج استعمال نہیں کر سکتا، چیف جسٹس کا دفتر 2 سینیئر ججز کے ساتھ کیسے شئیر کیا جاسکتا ہے، عدلیہ کی آزادی پر سپریم کورٹ کئی فیصلے دے چکی ہے، ریاست کے ہر ادارے کے اقدامات کا سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے۔

امتیاز صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ قاسم سوری کیس میں قرار دے چکی ہے کہ پارلیمنٹ کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے، ماضی میں عدالت قرار دے چکی ہے کہ بل کو پاس ہونے سے نہیں روکا جاسکتا، بل پاس ہوجائے تو عدالت اس کا جائزہ لے سکتی، عدالتی فیصلے کے مطابق صدر کی منظوری سے پہلے بھی مجوزہ ایکٹ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت آئین کی محافظ اور انصاف کرنے کے لیے بااختیار ہے، تمام ادارے سپریم کورٹ کے احکامات ماننے کے پابند ہیں، سپریم کورٹ کے رولز موجود ہیں جن میں پارلیمنٹ ترمیم نہیں کرسکتی، آپ کے مطابق عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے جس کو آئین کا مکمل تحفظ حاصل ہے، آپ کے مطابق پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کی طرح عدلیہ کو بھی آئینی تحفظ حاصل ہے۔

امتیاز صدیقی نے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ صدر ریاست پاکستان کی وحدانیت کی علامت ہے، صدر کا عہدہ صرف رسمی نوعیت نہیں ہے، صدر نے بل کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کی، اسمبلی منظوری کے بعد بل میں ترمیم نہیں ہوسکتی، بل کی منظوری کے بعد قانون سازی کا عمل مکمل تصور ہوتا ہے، عدالت کا موجودہ کیس میں حکم زیر التوا قانون سازی میں مداخلت نہیں ہوگا، پارلیمنٹ اپنا کام مکمل کرچکی اس لیے یہ مداخلت تصور نہیں ہوگی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ حسبہ بل ریفرنس کی صورت میں آیا تھا، حسبہ بل میں گورنر کو بل پر دستخط سے روکا گیا تھا۔

امتیاز صدیقی نے استدعا کی کہ وزارت قانون کو فیصلے تک مجوزہ ایکٹ بطور قانون نوٹیفائی کرنے سے روکا جائے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس کو جلد دوبارہ مقرر کیا جائے گا، جائزہ لینا ہے کہ اس معاملہ میں آئینی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی، ججز کی دستیابی کو مد نظر رکھ کر جلد سماعت کے لیے مقرر کریں گے۔

امتیاز صدیقی نے استفسار کیا کہ کوئی مقدمہ 10 رکنی بینچ سنے تو اپیل کیسے دائر ہوسکتی ہے؟ کیا سینیئر ججز کے فیصلے کے خلاف جوئنیر ججز اپیل سن سکتے ہیں؟، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام ججز برابر ہوتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ایڈووکیٹ امتیاز صدیقی سے استفسار کیا کہ موجودہ کیس میں عدالت سے کیا چاہتے ہیں؟

امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر غیر آئینی قرار دیا جائے، موجودہ کیس میں بل کی منظوری سے پہلے سے مراحل کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے۔

حکمران جماعتوں نے سپریم کورٹ پروسیجر بل پر عدالت عظمیٰ کے بینچ کا قیام مسترد کردیا

اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’عدلیہ کی آزادی اہم معاملہ ہے، پارلیمنٹ کا بہت احترام ہے۔ کیس کو جلد دوبارہ مقرر کیا جائے گا۔ جائزہ لینا ہے کہ اس معاملے میں آئینی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔‘

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کو نوٹس جاری کریں گے، وفاقی حکومت، اٹارنی جنرل اور سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس جاری کریں گے۔

بعدازاں عدالت نے اٹارنی جنرل، سیاسی جماعتوں اور فریقین سمیت پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کو بھی معاونت کے لیے نوٹس جاری کرنے کے ہدایت دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل حکومت میں شامل جماعتوں نے سپریم کورٹ پروسیر بل پر عدالت عظمیٰ کے 8 رکنی بینچ کے قیام کو مسترد کیاہے.