شاہد میتلا
میں دو فروری کو جنرل قمر جاوید باجوہ کے فرسٹ کزن اور اپنے قریبی دوست چوہدری نعیم گھمن کی تیمارداری کے لیے ان کے گھر گیاکچھ ہی دیر کے بعد سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی تشریف لے آئے۔
ابتدائی گپ شپ کے بعد کہنے لگے کہ آپ کے سوالات مجھ تک پہنچتے رہےہیں۔آج روبرو پوچھ لیں اور پھر یہ ملاقات طویل انٹرویو میں تبدیل ہوگئی۔
میڈیا پر گفتگو شروع ہوئی تو جنرل باجوہ کہتے ،آج کل حامد میر اور طلعت حسین میر ے خلاف ہیں۔حامد میر بہت جھوٹے ہیں۔ حامد میر نے نسیم زہرا کے حوالے سے بھی جو بات کی کہ اس نے مجھے این ڈی یو میں شٹ اپ کال دی ہے جھوٹ ہے۔وہ خاتون ہیں وہ مجھے کیا شٹ اپ کال دے سکتی ہیں۔
پاکستان میں تین لوگ ” عمران خان ،شیخ رشید اور حامد میر “سب سے بڑے جھوٹے ہیں ۔
طلعت حسین کو لگتا ہے کہ میں نے اسے نوکری سے نکلوایا تھا۔طلعت حسین کو میں نے نہیں جنرل فیض نے نوکری سے نکلوایا تھا۔میں نے تو طلعت کو نوکری دلوائی تھی۔طلعت جب پہلی بار فارغ ہوا تو وہ میرے کزن انجم وڑائچ کو لے کر میرے پاس آیا تو میں نے جنرل فیض کو کہہ کر اس کی نوکری لگوائی۔
میں نے کہا مرتضیٰ سولنگی ، نصرت جاوید وغیرہ کو آپ نے چینل سے نکلوایا تھا؟
کہتے بالکل نہیں ،مرتضیٰ سولنگی کو پہلے نہیں جانتا تھا ڈیڑھ سال سے انہیں جاننا شروع ہوا ۔
پھر میں نے سوال کیا آپ نے ابصارعالم کو گولی مروائی ؟
کہتے آپ ایک انسان کو قتل کرنا معمولی سمجھتے ہیں، میں نے قبر میں نہیں جانا ،میں نے آ ج تک کسی بے گناہ کو مارنے کا حکم نہیں دیا۔
میں نے کہا وہ آپ پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے آپ کو آرمی چیف بنوانے میں مددبھی کی اور آپ نے ان پر پھر بھی گولی چلوائی؟
جنرل باجوہ نے جواب دیاابصار کو گولی میں نے نہیں مروائی۔میں نے فوٹیج دیکھی تھی حملہ آور کے ہاتھ میں چھوٹا سا ٹی ٹی پسٹل تھا،حملہ اناڑی پن سے کیا گیا تھا۔میں ایسا کیوں کرتا ۔
میں نے کہا پھر جنرل عرفان ملک نے یہ کروایا تھاکیونکہ ابصار عالم نے ان کی تصویر ٹویٹر پر لگائی تھی؟ کیاانہوں نے یہ کام غصے میں کیا ہوگا؟
کہا کہ میرے علم میں نہیں ہے ہو سکتا ہے نیچے کے لیول پر کسی کو غصے آگیا ہو اور اس نے یہ کام کیا ہو۔میں تو ا سد طور کو بھی نہیں جانتا تھامجھے اسد طور کے واقعہ کابھی اگلے دن پتہ چلا تھا ۔
آرمی چیف کو ہرچیز کی خبر نہیں ہوتی، اس کے کرنے کے اوربہت کام ہوتے ہیں۔کہا کہ مطیع اللہ جان والا واقعہ ایجنسی نے بھونڈے طریقے سے کیا تھا،میں نے اس پر جنرل فیض کی کلاس لی ۔ پھر مطیع اللہ جان کو چھڑوایا۔
مجھ پر اعظم سواتی اور شہباز گل کو ننگا کرنے کا بھی الزام غلط لگایا گیا۔میں ساٹھ باسٹھ سال کا ہوں ۔ میں اس عمر میں کسی کو ننگا کرواؤں گا؟ ستر سال کے بزرگ اعظم سواتی کو ننگا کیسے کرسکتا ہوں یہ بھی بکواس ہے۔ مجھ پر شہباز گل کو ننگا کرنے کا الزام بھی غلط ہے۔میرا ان چیزوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔میں نے قبر میں بھی جانا ہے لیکن اعظم سواتی نے مجھے باسٹرڈ تک لکھ دیا۔
پولیس اور ایف آئی اے بھی ایسے معاملات میں اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں۔
میں نے پوچھا اعظم سواتی تو ایجنسیوں پر الزام لگاتے ہیں؟
جواب دیا، بعض اوقات ایجنسیوں میں شاہ سے زیادہ شاہ سے وفادار بننے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ نچلے لیول پر ہوتا ہے۔بہر حال میرا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
کہا کہ ایمان مزاری نے پوسٹر لگا یا جنرل باجوہ بے غیرت ہے تواس پر جوانوں کو غصہ آیا ۔ ایک میجرنے کہا کہ سر آپ بے غیرت ہیں۔ ہم اس کو فکس کریں گے تو میں نے منع کردیاکہ نہیں بس قانونی طریقے سے نمٹیں اوراس ایشو کو ختم کردیں۔میں ہر طرح کی تنقید برداشت کرتا تھا لیکن ادارے کی عزت کا بھی سوال ہوتا ہے۔ پھر ایمان مزاری کے خلاف جی ایچ کیو نے باقاعدہ ایف آئی آر درج کروائی۔
جسٹس اطہر من اللہ کی بیٹی ایمان مزاری کی دوست ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ایمان مزاری کو ضمانت دے دی۔اس کے بعد ہم نے جان بوجھ کر اس کیس کی پیروی نہیں کی تاکہ معاملہ وہیں ختم ہوجائے۔فوج اور فوجی افسروں کے خلاف جو مرضی کہہ دیں الزام لگا دیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔فوجی افسر جواب بھی نہیں دے سکتے ۔ججوں کے بارے میں بات کریں گے تو وہ جواب دے لیتے ہیں۔لیکن ہمارے پاس ایسا کوئی آپشن نہیں ہے۔پاکستان میں ہتک عزت کے قوانین کمزور ہیں۔
میں نے کہا آپ نے جنرل عرفان ملک کو آئی ایس آئی سے اس لیے ہٹایا کہ انہوں نے مریم نواز کو سمیش کرنے دھمکی دی تھی؟
کہتے ،میں نے نہیں ان کو جنرل فیض نے ہٹایا تھا۔جنرل فیض ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی سی دونوں کا کام خود کرنا چاہتے تھے۔
میں نے پوچھا مریم نواز والا واقعہ کیسے ہواتھاکس نے دروازے توڑنے کا حکم دیا تھا؟
انہوں نے کہا یہ حکم میں نے نہیں دیا تھا، بریگیڈئیر حبیب اس وقت سیکٹر کمانڈر تھے۔کیپٹن صفدر نے مزارِ قائد پر نعرے بازی کی تو عوام ،فوجی جوانوں اور میڈیا کا دباؤ تھا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائےتو جنرل فیض نے مقدمہ درج کرنے کا کہا تھا مگر نچلے لیول پر کچھ زیادہ ہوگیا۔پولیس نے جب ریڈ کیا تو کیپٹن صفدر اور مریم نواز الگ الگ کمروں میں تھے وہ دونوں ایک کمرے میں نہیں تھے۔
میں نے کہا آپ کو اس پر نواز شریف نے فون کیایا کوئی شکایت کی ؟
کہتے نہیں، نواز شریف نے فون کیا نہ کوئی شکایت کی۔ہم نے ذمہ دار افسر کو ہٹا دیا تھا۔
میں نے سوال کیا آپ نے کہا تھا کہ شیو کرتے ہوئے آپ صدیق جان کو سنتے ہیں؟ مجھے یہ سن کر افسوس ہوا تھا کہ پاکستان کے آرمی چیف کا انٹیلیکٹ لیول اتنا پست ہے؟
اس پر جنرل باجوہ ہنسے اور کہا کہ ہاں میں نے صدیق جان کو کہا تھا مجھے کسی نے اس کا وی لاگ بھیجا تھاتو شیو کرتے ہوئے سنااور یہی فارغ وقت ملا۔ویسے بھی جب آپ دباؤ میں ہوتے ہیں تو آپ وہی بات سننا چاہتے ہیں جو آپ کے حق میں ہواور آپ کے مخالف کے خلاف ہو۔بعض اوقات آپ کسی کی حوصلہ افزائی بھی کررہے ہوتے ہیں۔کچھ یوٹیوبرز میرے پاس آئے ہوئے تھے تو اس وقت صدیق جان کویہ کہا تھا۔
میں نے کہا اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے صحافی کیسے عمران خان کے کیمپ میں چلے گئے اور ایسے بھی جن کو بنایا ہی فوج نے تھا؟
کہتے ،بالکل ہم نے کچھ صحافیوں کو بنایا ان کو ہم خبریں بھی دیتے تھے،ان سے پروگرام بھی کرواتے تھے۔ ہوا یہ کہ جب فوج کی ن لیگ کے ساتھ لڑائی شروع ہوئی تو ہمیں ایسے صحافیوں کی ضرورت تھی جو ان کے خلاف بات کریں یا ان کے مخالف ہوں۔اسی طرح اے آر وائی کی ہمیں اس لیے ضرورت تھی کہ وہ ہماری بات کرتا تھا۔چوہدری غلام حسین اور صابر شاکر کو تو میں فیلڈ میں بھی ساتھ لے گیا۔جب فوج نے اپنی پالیسی تبدیل کی تو ہمیں ایسے صحافیوں کو آہستہ آہستہ بتانا چاہیے تھا۔ آہستہ آہستہ ان کا بیانیہ بدلنا چاہیے تھا اور ان کو آہستہ آہستہ تبدیل کرتے لیکن ہم نے یہ نہیں کیااور ہم نے ایک دم اپنی سائیڈ بدل لی۔اس سے وہ وہیں پر رہ گئے۔دوسرا عمران خان جھوٹ بولنے میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔وہ بہت چالاک آدمی ہیں اور جھوٹ جھوٹ بار بار بولتے ہیں اور لوگ اس پر یقین کرلیتے ہیں۔
اوریا مقبول جان کا ذکر ہوا تو جنرل باجوہ ہنسے اور کہا کہ وہ بھی بہت جھوٹا آدمی ہے۔پہلے اس کو میرے بارے میں خواب میں بشارت ہوتی تھی اور اب میری مخالفت کرتا ہے۔ارشاد بھٹی سے شناسائی کے ذکر پر جنرل باجوہ کہتے اس کو میں نے جیو میں نہیں رکھوایا تھا۔
ہوا یوں کہ ایک دن میرے سسر جنرل اعجاز امجد کہتے تمہیں اپنے دوست کے ہاں ڈنر پر لے کر جانا ہے۔ جب ہم اسلام آباد ان کے دوست کے گھر پہنچے تویہ صدرالدین ہاشوانی کا گھر تھا۔میں اس وقت میجر جنرل تھا۔وہاں صدرالدین ہاشوانی نے ارشاد بھٹی کا تعارف کروایا کہ وہ ہمارا میڈیا کا سیٹ اپ دیکھتا ہے۔ پھر اس کے بعد ارشاد بھٹی میرے پاس آنا شروع ہوگئے۔جب میں کورکمانڈر بنا تب بھی میرے پاس باقاعدگی سے آتے رہے۔
میں نے پوچھا میر شکیل الرحمان کو جیل کس نے بھجوایا تھا؟
کہتے ،میر شکیل الرحمان کو عمران خان نے جیل میں ڈلوایا تھا۔میں نے میر شکیل الرحمان کو جیل سے نکلوایا۔ میں نے عمران خان سے کہا تھا کہ میر شکیل الرحمان کینسر کا مریض ہے وہ جیل میں ہی مر جائے گاتو پھر اس نے بات مانی۔
میری جنرل باجوہ سے ملاقات کے وقت میڈیا پر شیخ رشید کی گرفتاری کی خبر چل رہی تھی ۔جنرل باجوہ کہتے شیخ رشید گرفتار ہوگیا ہے اس کو کیوں گرفتار کرلیا، وہ تو بالکل زیرو ہے۔
میں نے کہا وہ تو جی ایچ کیو کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں اور خود بھی بتاتے ہیں۔
جواب دیا، وہ کوئی جی ایچ کیو کے قریب نہیں ، وہ ایسے ڈینگیں مارتا ہے۔جب میں گورڈن کالج گیا تو اس سے چھ سال پہلے شیخ رشید کالج سے جا چکا تھا۔میں تو اس کو زندگی میں صرف دو دفعہ ملا ہوں۔ایک دفعہ وہ فروری 2022میں میرے پاس آیا تھا اور کہتا کہ عمران خان سے حکومت نہیں چل رہی کچھ کریں۔
شیخ رشید جیسے جھوٹے آدمی سے بھلا میں کیوں ملوں گا اس کا کوئی انٹلیکٹ لیول نہیں۔بالکل فارغ ہے اورمسلسل جھوٹ بولتا ہے اورایسے ہی نجومیوں کی طرح تاریخیں دیتا ہے۔ جنرل باجوہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ملاقات کے دوران جب میں جنرل باجوہ سے سوالات پہ سوالات کر رہا تھا تو انہوں نےہنستے ہوئے کہا آپ میری طرح بہت بے چین روح ہیں آپ صبر سے سنیں گے تو آپ کو سب سمجھ آجائے گا اور واقعی ایسا ہی ہواتو میں نے کہا آپ بہت اچھے سٹوری ٹیلر ہیں۔
جنرل باجوہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا میں جب لمز یونیورسٹی گیا ۔لمز یونیورسٹی اینٹی اسٹبلشمنٹ سمجھی جاتی ہے لیکن میں نے وہاں چھ گھنٹے سے زائد گفتگو کی،طلباء کے سوالات کے جواب دئیے۔
اس پر یونیورسٹی کے ریکٹر نے کہا سر آپ کو استاد ہونا چاہیے ، آپ بہت رواں گفتگو کرتے ہیں۔
یہ آرٹیکل پہلے نیا دور میںشائع ہوا.