شہریار محسود
پچھلے دس دنوں سے وزیرستان میں تھا جہاں انٹرنیٹ سروس بند تھی، ملکی حالات سے بے خبر رہا اس کے باوجود کہ اس وقت پاکستان ہمیشہ کی طرح تاریخ کے ایک اور نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ وزیرستان سے واپس کوریج ایریا میں آنے کے بعد بھی خود کو اس پریشانی اور ناامیدی سے نکال نہیں پارہا جو میں نے وزیرستان میں محسوس کی لہٰذا ہمارا موضوع بھی امید اور نا امیدی کے درمیان ہونے والی کشمکش ہے جس سے ہم براہِ راست متاثر ہیں اور نکلنے کی راہ تو دیکھ رہےہیں مگر دکھائی نہیں دے رہی۔
23 مئی بروز سوموار کو لدھا جنوبی اپر وزیرستان میں محسود پریس کلب کی افتتاحی تقریب کے موقع پر بریگیڈئیر فرحان صاحب نے کہا کہ میں اپنے فوجی کیریئر کے اٹھائیس سالہ سروس میں پاکستان کے اکثر خوبصورت علاقوں میں فرائض انجام دے چکا ہوں لیکن وزیرستان جیسی خوبصورتی کہیں نہیں دیکھی۔ یہ کہ دنیا میں بہت خوبصورت علاقے موجود ہے میں یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتا کہ وزیرستان دنیا میں سب سے خوبصورت جگہ ہے مگر یہ ضرور کہوں گا کہ وزیرستان روئے زمین پر ایک خوبصورت ٹکڑا ضرور ہے۔ پرکشش شخصیت کے مالک فرحان صاحب کی باتوں میں بھی کشش تھی مگر کاش ان کی ساری باتیں ہماری امیدوں کو حقیقت میں بدلنے کا باعث بنیں۔
حالانکہ وزیرستان جاتے ہوئے امید تھی کہ شاید انٹرنیٹ سروس بحال ہوجائے گی،میرا کام بھی جاری رہے گا اور بچیوں کا تعلیمی حرج نہیں ہوگا کیونکہ ہم جیسے مڈل کلاس والدین جو اپنے بچوں کو اعلی یونیورسٹیوں میں تو نہیں پڑھا سکتے، مگر آج کل کے جدید دور میں آن لائن ایجوکیشن سے امیدیں ضرور باندھ لیتے ہیں لیکن ہمیشہ کی طرح نا امید لوٹ آئے۔
بات امید کی نکلی ہے تو ہمارے لیے اس امید نے کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھارا۔ جوانی میں قدم رکھا تو نائن الیون ہوا، ایک ایسے خطرناک اور مشکلات بھری زندگی کا سامنا ہوا کہ یاد کرکے نیند غائب ہو جاتی ہے لیکن ہمیں ایک امید تھی کہ ریاست ہمیں بچانے آجائے گی لیکن وقت کے ساتھ اس امید نے دم توڑ دیا۔
بدترین بمباریوں اور توپ خانے کا سامنا ہوا لیکن امید قائم رہی کہ شاید ہمارے سسٹم میں کمزوریوں کی وجہ سے کسی کو پتہ نہیں چل رہا اس لیے جب ان کو پتہ چلے گا تو وہ ہمارے ساتھ ہمدردی کریں گے ہمارے زخموں پر مرہم رکھیں گے لیکن امید ٹوٹ گئی۔
جنگ کی وجہ سے علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو یہ امید تھی کہ ہمارے بڑے پھولوں سے ہمارا استقبال کریں گے ان کو اس بات کا احساس ہوا ہوگا کہ ان مظلوموں کو سالوں سے مار پڑرہی ہے لہٰذا اب تو کچھ مرہم کی پٹی رکھ دیتے ہیں لیکن بجائے اس کے کہ ہمیں سینوں سے لگا کر محبت بھرا احساس دیا جاتا، مختلف ناموں سے گروپس کے شکار بنے، لوٹے گئے اغوا کئے گئے، لوگوں کے عزت نفس مجروح کی گئی اور امید ٹوٹ گئی۔
پھر امید تھی کہ شاید ہمیں سبق دیا جارہاہے اور جب ہم اس معاشرے میں ضم ہو جائیں گے تو شاید ہمارے لیے آسانیاں پیدا ہوجائیں۔ چار پانچ سال تک بھکاریوں کی طرح یو ایس ایڈ کے آٹے کی لائنوں میں لگے رہے اور ہمارے لوگوں نے انتہائی تکالیف برداشت کرتے ہوئے مختلف علاقوں میں کاروبار کھڑے کیے اکثر ایسے لوگوں نے بھی اپنے بچوں کو حصولِ تعلیم پر لگایا جو کبھی تعلیم کو کفر سمجھتے تھے مگر ہمارے لوگوں کے راستوں میں مشکلات ہی آتی رہیں اورامیدیں ٹوٹتی ہی گئیں۔
انضمام کے بعد امید پیدا ہوئی کہ اب سالوں کے دکھوں کا مداوا ہونے والا ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف کو صوبائی حکومت کے لیے سلیکٹ کیا گیا،سابقہ فاٹا کے لیے اربوں روپے کے اعلانات ہوئے تو امید اور بھی زیادہ بڑھی مگر امید اس وقت ٹوٹی جب سابقہ فاٹا کے اربوں روپوں کے فنڈز مارکیٹ میں فروخت ہونا شروع ہوئے۔ امید تھی کہ سلیکٹیڈ حکمرانوں کو لگام ڈال دیا جائے مگر ہوا اس کے بالکل الٹ بلکہ وقت کے طاقتور مبینہ طور پر ایک ساتھ مستفید ہوئے اور ہماری بیچاری امید ٹوٹ گئیں۔
سالوں کے آپریشنز کے بعد جس نے ہمارے کلچر ہماری ایک پوری نسل کو برباد کر دیا ہمارے قبرستان وطن سے باہر بنیں، ایک امید تھی کہ اب واپسی کرکے پرامن زندگیاں گزارنے کا موقع ملے گا مگر واپسی کے بعد امید ایسے ٹوٹی کہ ہم روز جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں مگر بکھر ہی جاتی ہے۔
یہاں ہماری ایک الگ دنیا ہے،اس وقت ریاست اور عوام دو ایسے فریق ہیں جن کی امیدیں ایک دوسرے سے اتنی الگ ہیں کہ قربت کی کوئی ترکیب ہی نظر نہیں آتی اور یہ نا امیدی کی ایک مثال ہے۔
حکومت کو امید ہے کہ مقامی سطح پر لوگ اٹھیں اور ان کے ساتھ ملیں گے مگر میرا خیال ہے کہ یہ امید بس امید ہی رہنی ہے جس کی کئی وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں جن میں سے اکثر ناقابلِ بیان ہے مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ حکومت اس انتظار میں بیٹھی رہے گی کہ لوگ آئیں گے اور ملیں گے مگر لوگ علاقے میں ہی نہیں آئیں گے اور دنیا کا یہ خوبصورت ترین علاقہ غیر آباد ہی رہے گا اور یوں یہاں ریاست کی امید ٹوٹتی نظر آتی ہے۔یہاں آباد مقامی لوگوں نے آج بھی وہی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں جو کبھی ہم نے وابستہ کررکھی تھیں۔
مقامی لوگ سمجھتے ہیں کہ ریاست سپرمین ہوتی ہے اور ریاست چاہے تو سب کچھ حل ہو جاتا ہے، یقین مانیں کہ ان امیدوں کی وجہ سے بعض ایسی غلط فہمیوں نے جنم لیا ہے جن کے دور ہونے کے دور دور تک آثار نظر نہیں آرہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر لوگ اگر غلط فہمیاں پال بھی لیں ناراض رہیں یا دور تو لوگ کیا کر سکتے ہیں ؟
اس کا جواب نہیں ہے بلکہ لوگ دو تین اطراف سے خود کو مظلوم اور غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں دوسری جانب حکومتی سطح پر بھی بعض ایسی غلط فہمیاں ہیں جن کے خوشگوار اثرات نہیں پڑنے والے تو ایسے میں ہم جیسے متاثرہ ذہنوں کی امیدیں دم توڑ ہی دیتی ہیں۔ہم اپنے قلم کو امید کی سیاہی سے بھر دیتے ہیں مگر لکھنے تک سیاہی نکل چکی ہوتی ہے، کوئی ایسا غم سامنے ہوتا ہے کہ امید کی جگہ ناامیدی غلبہ پالیتی ہے۔
بس خدا ہمیں اس امید پر قائم رہنے میں مدد کریں کہ کبھی تو ہمارے حالات بہتر ہوں گے ہم آباد ہوں گے ہمارے علاقے کے باہمت اور باصلاحیت لوگ اس معاشرے کی بہتری میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کریں گے اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں مدد دیں گے جہاں معیشت کی ترقی امن کی ضمانت مانگیں گی۔
یہ کالم پہلے وی نیوز پر شائع ہوچکا ہے.