بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

عالم زیب محسود
اپریشن راہِ نجات کا اعلان تو 17 اکتوبر 2009 کو کیا گیا لیکن جنگ مئی میں ہی شروع ہو گئی تھی تاہم آرمی کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کسی اپریشن شروع ہونے کی تردید کر رہے تھے۔ انکے بقول یہ صرف پیرا ملٹری فورس اپنے پوسٹس پر جا رہے ہیں۔ حالانکہ باقاعدہ بڑے پیمانے پر سپنکئی رغزائی، سپلاتوئی اور تیارزہ کے کئی علاقوں میں توپ خانہ استعمال ہو رہا تھا اور وہاں کے لوگ بالائی علاقوں میں جس میں ہمارا گاؤں بھی شامل ہے آنا شروع ہو گئے تھے۔ جون 2009 کا مہینہ میری زندگی کا ایک مایوس کن مہینہ تھا۔ اس میں میرے گاؤں کا ایک تعلیم یافتہ اور بہترین نوجوان جس کی ایک ماہ پہلے شادی ہوئی تھی، فوج کی فائرنگ سے جان بحق ہوا اور جون کے مہینے میں ہی ہماری ائیر فورس کے مکین بازار پر حملے اپنی آنکھوں سے ایسے دیکھے کہ وہ منظر اگر کوئی بھی پاکستانی دیکھ لیتا تو سخت مایوس ہوتا۔ اسکے بعد جنازے پر ڈرون حملہ گویا جون 2009 کا مہینہ معصوم عوام کے خون بہنے کا مہینہ تھا۔

میرے گاؤں کا ایک نوجوان ضیاء الدین جس کی شادی 4 مئی 2009 کو ہوئی تھی۔ وہ 10جون 2009 کو وانا کے علاقے سپین میں گورنمنٹ سکول میں اپنی ڈیوٹی بحیثیت ایک ٹیچر سرانجام دے رہا تھا۔ وہاں سے فوج کا قافلہ گزر رہا تھا جس پر فائرنگ ہوئی۔ فوج نے Retiliation میں نزدیک ہر گھر اور سکول کو نشانہ بنالیا جس میں سکول میں موجود ضیاءالدین سمیت 10 اساتذہ اور طالب علم جان بحق ہوگئے. میں نے اسکی خبر میڈیا کے ریکارڈ میں ڈھونڈھنے کی کوشش کی تو یہ بیان دیکھنے کو ملا۔ 10 جون کو سپلتوئی اور جنڈولہ قلعے پر 400 سے زائد شدت پسندوں نے حملہ کیا جو کئی گھنٹوں تک جاری رہا. تین جوان شہید اور پانچ زخمی ہوئے جبکہ عسکری زرائع نے ڈیلی ٹائمز کو بتایا کہ ہسپتال زرائع نے 11 طالبان کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جبکہ 7 زخمی ہوئے۔ وہ 11 طالبان تو اس روز کہیں مارے نہیں گئے تھے لیکن شاید سپین اسکول کے اساتذہ اور طالب علموں کو اس زمرے میں ڈال دیا گیا تھا۔ بعد میں حکومت نے معاوضے اور انکی تنخواہ جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ ضیاءالدین کی لاش کو گاؤں لایا گیا تو اس کے چہرے کو دیکھ کر کوئی بھی آبدیدہ ہوئے بنا نہ رہ سکا۔ یہ انتہائی خوبصورت نوجوان تھا۔ ٹینک کے گولے سے جب سکول کے کمرے کی دیوار تباہ ہوئی تو اسکے ملبے سے اسکا چہرہ پوری طرح سے داغ دار تھا۔ وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ حملے کے وقت سکول کی چھٹی ہو گئی تھی۔ سکول میں چند طالب علم اور اساتذہ موجود تھے۔ جب حملہ ہوا تو اساتذہ طالب علموں کو لے کر سکول کے کمرے میں گئے کہ تب ہی ٹینک کا گولہ سکول کے عمارت کے اس کمرے پر لگا جس نے کمرے کی دیواروں کو پارہ پارہ کر دیا۔

ابھی اس کے غم سے باہر نہیں آئے تھے کہ 12جون کو مکین میں ائیر فورس نے پہلا حملہ کر دیا۔ صبح کے 8بجے کا وقت ہوا ہوگا۔ پہاڑوں کے سارے اطراف پر سورج کی روشنی نہیں پڑی تھی۔ پہاڑی علاقوں میں صبح اور عصر اور شام کے درمیانی وقت میں ڈرون طیارے بڑے صاف دکھائی دیتے تھے۔ کیونکہ سورج کی روشنی کو نیچے زمین پر پہاڑ روکے رکھتے ہیں اور آسمان میں ڈرون طیارے بڑے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت بھی معمول کے مطابق ڈرون طیارے اُڑ رہے تھے۔ میں گاؤں کی دوکان کی طرف جارہا تھا۔ اس دوران جٹ طیاروں کی گن گرج سنی۔ جب آسمان کی طرف دیکھا تو دو جٹ طیارے امریکن ڈرون طیارے کے نزدیک سے گزرے۔ یہ میرے لئے دلچسپ منظر تھا۔ اُن دنوں ڈرون حملوں کے خلاف بہت سی آوازیں اٹھ رہی تھی اور فوج کی طرف سے بھی کہا جا رہا تھا کہ ہم ڈرون کو گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مجھے لگا کہ شاید فوج نے ڈرون کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ طیارے ڈرون کے نیچے اور اوپر سے گزرنے لگے۔ میں ایک ذرا اونچی جگہ پر ٹہر کر دیکھنے لگا۔ چار پانچ منٹ اس طرح کے چوہے بلی کا کھیل رہا ہوگا کہ ایک جٹ طیارہ مغرب کی طرف سے آیا اور ڈرون کے عین نیچے سے غوطہ لگا کر مکین بازار جو نزدیک ہی ہمارے شمال مشرق میں پڑتا ہے، کی طرف بڑھا اور بازار پر دو بم گرا دئیے۔ اس کے بعد تو جیسے میرے پیروں سے زمین ہی نکل گئی۔ یہ لمحہ میری زندگی کا سب سے زیادہ مایوس کن لمحہ تھا کہ ہمارے طیارے ڈرون کے بجائے بازار پر بم گرا رہے ہیں۔ میرے گاؤں سے مکین بازار نیچے اور صاف نظر آتا ہے۔ اس مایوسی سے زرا نکلا تو خیال آیا کہ مکین بازار کو میرے بھائی، کزن اور دیگر گاؤں والے گئے ہیں۔ ایک دم سے میری مایوسی سخت تشویش اور پریشانی میں تبدیل ہو گئی۔ یہ پریشانی اس وقت انتہاء کو پہنچی جب مکین سے گاڑیاں واپس آنے لگی۔ لوگ واپس آ رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ سینکڑوں لوگ مارے گئے ہیں۔ہمیں کچھ اندازہ نہیں لگ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ میرے بھائی اور کزن کو جب بہت دیر لگی تو اسکے پیچھے جانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن خوش قسمتی سے یہ نوبت نہ آئی اور اپنے پیاروں کو زندہ سلامت واپس آتے دیکھا۔ ان کے بقول بم ایک ہوٹل اور نزدیک دکانوں پر گرائے گئے جس سے عام شہری جان بحق ہوئے۔ اس وقت لوگ کافی بڑی تعداد میں ڈاکٹر چیک اپ، خرید و فروخت اور دوسرے شہروں میں جانے کے لئے بازار آتے ہیں۔ میرے گاؤں والے اور رشتہ دار لوگوں کی مدد کے لئے ٹھہر گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ بعد میں طالبان نے لوگوں کے جسموں کے گوشت کو کلو کے حساب سے لواحقین کے حوالے کیا۔ ایک عورت نے اپنے شوہر کے ہاتھ کو ہاتھ پر پہنی گھڑی سے پہچانا۔ انتہائی خوفناک اور کربناک مناظر تھے جبکہ اس میں مجھے کسی طالب کے مرنے کی خبر نہیں آئی۔ لیکن جب میڈیا اور ISPR کی رپورٹ دیکھیں تو اس وقت ISPR کے مطابق “ہفتے کو مکین میں ہوئے حملے میں 30 دہشت گرد ہلاک اور 50 زخمی ہوئے جن میں غیر ملکی بھی شامل تھے” مزید کہا گیا کہ یہ دفاعی جواب تھا۔

12جون کو لاہور میں ہوئے جامعہ نعیمہ پر خودکش حملے کا جن میں 7شہری مارے گئے تھے۔ اس حملے میں ISPR نے حسب روایت کسی عام شہری کے جانبحق ہونے کی بات نہیں کی جبکے وہاں عینی شاہدین جن میں میرے بھائی اور کزن شامل تھے، کے مطابق 100 سے زائد عام شہری شہید ہوئے۔ جامعہ نعیمہ لاہور میں معصوم جانوں کا بدلہ وزیرستان میں سینکڑوں معصوم جانوں سے لیا گیا۔ اسکے بعد اندازہ ہوا کہ ڈرون کے اوپر نیچے غوطے کھانے کا مقصد اس کاروائی کو ڈرون کے کیمروں میں ریکارڈ کرانا تھا۔

مجھے یقین ہے کہ جب کھبی امریکا نے اپنے خفیہ دستاویزات (جن کو وہ ایک عرصے بعد افشاء کرتے ہیں) کے ساتھ اس دن کی ڈرون کی ویڈیو بھی جاری ہوگی۔ اس واقعے کے بعد ڈرون طیاروں کے حملوں میں بےتحاشا اضافہ ہوا جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ انکو پتہ چل گیا کہ جب یہ خود اپنے لوگوں کے بازاروں پر بم گرا سکتے ہیں تو ہم اتنے پروٹوکول کیوں فالو کریں اور پھر ایسا ہی ہوا۔ مکین بازار کے واقعے کے 10 دن بعد 23 جون کو سپینہ میلہ زنگاڑہ میں جنازے پر ڈرون حملہ ہوا۔ اس میں 130 سے زائد عام شہری شہید ہوئے۔ ایک گھر کے تو 10افرد شہید ہوئے اور وہ خاندان آج بھی ڈی آئی خان میں مقیم ہے۔ جبکہ میڈیا کے مطابق سارے دہشت گرد تھے۔ 28 جون کو لدھا تحصیل میں دوبارہ فضائی حملے ہوئے۔ اس میں چند قبائلوں کے گھروں سمیت طالبان کے ایک مقامی کمانڈر کے گھر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اب تو ہر صبح اسطرح کا ماحول جیسے فضائی جنگی مشقیں جاری ہوں، دیکھنے کو ملتا۔ ہم کسی اونچے مقام پر کھڑے ہوکر تماشہ کرتے۔ گویا اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوں۔ پتہ نہیں کیوں مگر اب دل میں گھبراہٹ محسوس نہیں ہوتی تھی، دل میں اگرچہ بے انتہاء گیلہ اور غصہ اس انسانی شکار پر پیدا ہوتا۔

5 اگست کو بیت اللہ محسود ڈرون حملے کا نشانہ بنا۔ ان دنوں رمضان کا مہینہ شروع ہوا۔ میں فرسٹ ائیر کے داخلے کے لئے ڈیرہ اسماعیل خان آیا۔ داخلے کے بعد واپس چلا گیا۔ حالات ہر روز ابتر ہوتے جا رہے تھے۔ لوگوں کو یقین نہیں تھا کہ یہ آنے والا آپریشن سالوں پر محیط ہوگا۔ وہ سمجھتے کہ ماضی کی طرح ایک دو ماہ آپریشن چلے گا اور حسب معمول امن معاہدہ ہوگا۔ اسی سوچ نے لوگوں کا بے تحاشا نقصان کرایا۔ جب لوگ اپنے گھروں سے نکل رہے تھے تو کسی نے بھی اپنے گھروں کے لاکھوں روپے مالیت کا سامان لے جانے کی ضرورت محسوس نہ کی اور اوپر سے اس وقت سب کچھ لے جانا بھی ممکن نہ تھا۔ لوگ اپنے بھال بچوں کے ساتھ نکل رہے تھے۔ جن کی مویشی تھی انہوں نے انکو یوں ہی کھولا چھوڑ دیا۔ یہی کچھ میرے گھر والوں نے بھی کیا۔ میں اپنے خاندان سمیت ستمبر 2009 کے آخری دنوں میں وزیرستان سے ڈی آئی خان کی طرف آنے لگا۔ لدھا سے ڈی آئی خان کی طرف تین راستے ہیں یعنی جنوب میں وانا کی طرف سے، شمال میں رزمک میرعلی کے زرئعے بنوں سے ہوکر اور مشرق میں سپنکئی رغزائی اور جنڈولہ سے ہوتے ہوئے ڈی آئی خان پہنچا جاتا ہے۔ یہ تینوں راستے بند تھے۔ ایک کچا روڈ جو مکین سے سپینہ میلہ کے راستے شکتوئی اور وہاں سے میرعلی کو نکلتا تھا، یہ راستہ ہی بچا تھا۔ ہم نے اپنا کچھ سامان لیا اور گاڑی کا انتظام کیا۔ یہ میری زندگی کا سب سے مشکل سفر ثابت ہونے والا تھا۔ ہماری گاڑی جب بازے جو ہم سے 15 کلو میٹر دور ہے اور لدھا مکین روڈ پر پڑتا ہے، پہنچی تو خراب ہو گئی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ مارٹر گر رہے تھے اور جب آپ کے ساتھ خواتین اور بچے ہوں تو اور بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ اسی جگہ پر ہمارے بعد آنے والا ہمارے علاقے کے ایک خاندان پر مارٹر گرا جس میں حاجی جنتی خان کی اہلیہ بری طرح زخمی ہوکر 4 ماہ کا حمل بھی ضائع ہو گیا اور آج تک وہ چارپائی کی ہو کر رہ گئی ہے۔ اللہ نے ہمارے اوپر فضل کیا، ہم نے وہیں پر محفوظ مقام تلاش کیا تاکہ اگر کوئی مارٹر گرے تو نقصان نہ پہنچے۔ میرے چاچا مکین گئے جو نزدیک تھا۔ وہاں سے تھوڑی دیر بعد گاڑی کو لے آیا۔ یہ گاڑی بہت پرانی تھی لیکن کوئی چارہ نہ تھا اسلئے ہم نے سامان کو دوسری گاڑی پر لاد دیا۔ مکین چشمے سے جب ہم اوپر مکین کی طرف جانے لگے۔ تو انتہائی کم چڑھائی پر گاڑی نے جواب دینا شر وع کیا۔ ہم مردوں کو جو تعداد میں چار تھے، دھکا دے کر اسے چڑھانا پڑا۔ وہاں اندازہ تو ہوا کہ یہ گاڑی آگے بہت ستانے والی ہے اور جس راستے پر ہمیں جانا تھا، وہ کچھ زیادہ ہی چڑھائی والا تھا۔ یوں ہم کو جگہ جگہ اترنا پڑتا اور گاڑی کو دھکا دینا پڑتا۔ گاڑی ہم کو کم، ہم گاڑی کو زیادہ لے کر جا رہے تھے۔ آخرکار شکتوئی میں محسود علاقے سے جیسے ہی باہر نکلے تو گاڑی نے جواب دے دیا۔ اس پر کافی محنت کرنے کے بعد تیسری گاڑی کا انتظام کرنا پڑا۔ تب تک شام ہونے والی تھی اور ہم اب تک 60میل کا فاصلہ بھی طے نہیں کر پائے تھے۔ بحرحال تیسری گاڑی میں میرعلی پہنچے۔

شمالی وزیرستان میں جگہ جگہ ہمارے وزیر اور داوڑ قبائل نے متاثرین کے لئے کھانے کا انتظام کیا تھا۔ اپنے گھر خالی کئے تھے جس میں متاثرین کو ٹھہرا رہے تھے۔ مجھے نہیں لگتا کہ آج کے دور میں کہیں ایسی قربانی، مہمان نوازی اور بھائی چارے کا منظر دیکھنے کو ملے گا جو منظر 2009 میں اپنے محسود قبیلے کے لئے وزیر اور داوڑ بھائیوں کی طرف سے دیکھنے کو ملا۔ انہوں نے واقعی اسلامی اخوت اور اپنے خون کا حق ادا کیا۔ میر علی رات دیر سے پہنچے اور تھکاوٹ سے جسم ٹوٹا جا رہا تھا۔ میر علی میں مقامی لوگوں نے ہمیں بہت کہا کہ ہمارے پاس ٹھہر جایئں لیکن چاچا نے میرعلی بازار پہنچ کر آگے جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ جب بازار پہنچے تو پتہ چلا کہ آگے جانے کی اجازت نہیں ہے، کرفیو لگا ہے۔ ہم کو مجبوراً وہاں ایک ہوٹل میں ہی صبح کرنی نصیب ہوئی۔ صبح سویرے چوتھی گاڑی پکڑی۔ میرعلی روڈ پر کرفیو تھا۔ ہم نے ایک کچھا راستہ جانے کا چُنا جو چشموں سے ہوکر جاتا تھا۔ بنوں پہنچ کر پانچویں گاڑی تبدیل کی اور پھر اس میں ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے۔ اسطرح وزیرستان سے ڈی آئی خان جو تقر یباً 5 گھنٹے کا سفر ہے، ہم نے 2 دن اور ایک رات میں طے کیا۔ مجھے غالب کا وہ شعر یاد آ رہا تھا کہ
نکلنا خُلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

یقیناً ہم بھی اپنے وطن وزیرستان سے اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں بڑے آزمائشوں سے ہوکر نکلے تھے۔ اس کے بعد اپریشن راہِ نجات کا رسمی اعلان اکتوبر میں ہوا۔ متاثرین ابتداء میں کئی مشکلات میں گرفتار ہوئے جس کے بعد میرا سیاسی زندگی کا آغاز بھی ہوا۔ بہرحال اس جنگ کو غیر منطقی بنیادوں پر خود غرض آمر نے شروع کروایا جس کا انجام اور کیا ہونا تھا سوائے اسکے کہ ملک کی عزت اور رِٹ داؤ پر لگ جائے، ہزاروں جانوں کا زیاع ہو، نفرت کے پودے اپنی جڑیں معاشرے میں پیوست کریں، کئی گھر اجڑ جائیں، کئی معاشرے عروج سے زوال پزیر ہو جائیں، کئی عصمتیں نیلام ہوں، زندہ انسانوں کے بیچنے کا کاروبار چل پڑے، کئی آنکھوں کے خواب بکھر جائیں۔ اس دہشت گردی کی جنگ میں مجھ سے گھر بار، رسم و رواج ہی نہیں چھینی گئی بلکہ وہ عمارت بھی ملبے کا ڈھیر بن گئی جس کے لئے میرے والدین نے بہت محنت کی تھی۔ اپنا خون پسینا ایک کیا تو جاکر ایک عمارت کھڑی کی۔ وہ دوسروں کے لئے تو محض ایک پرائمری سکول کی عمارت ہو سکتی ہے لیکن ہمارے لئے وہ ہمار ے والد کے انکھوں کا وہ خواب ہے جس کے لئے انہوں نے دن رات ایک کی تاکہ علا قے کی لڑکیاں علم کے زیور سے آراستہ ہوسکیں۔ گوگل آرتھ پر آج بھی سکول کی عمارت کی جگہ کالا دھبہ پاکر قبائل کے مستقبل پر کالا دھبہ محسوس کرتا ہوں۔
کیا ایسا ہی انجام ہوا کرتا ہے کسی خود غرض امر کے غلط فیصلوں کا، میں اکثر یہ بات سوچتا ہوں۔

نوٹ: یہ تحریر 2015 میں لکھی گئی ہے اور عالمزیب محسود کی کتاب (امن کی جنگ) میں‌درج ہے.