رحماء بی بی
جاگیردارانہ نظام ایک سماجی اور اقتصادی ڈھانچہ کا نام ہے جس میں بڑی زمینیں اور جاگیریں چند لوگوں کے ہاتھ میں مرکوز ہیں ۔ عبداللہ کے مطابق جاگیردارنہ نظام ایک سوچ کا نام ھے جسمیں دوسرے کو کمتر یا حقیر سمجھنا ھے جبکہ ڈاکٹر خانریب کے نزدیک جاگیردارنہ سوچ کے مالک اپنے عزائم کے حصول کے لیے ماتحت لوگوں کا استحصال کرتے ہیں جبکہ ماتحت طبقہ اس (استحصال) کو قدرتی امر سمجھ کر اپنا مقدر گردانتے ہیں.
پاکستان میں اس نظام کی جڑیں برطانوی راج کے دور سے پیوستہ ہیں۔ جب برطانوی حکومت نے مقامی سرداروں اور زمینداروں کو زمینیں عطا کیں تاکہ وہ اپنے علاقوں میں برطانوی حکومت کی حمایت کریں جو برطانوی حکومت کو اپنا تسلط قائم رکھنے کےلئے ضروری تھا۔
یہ نظام آج بھی پاکستان کے دیہی علاقوں میں موجود ہےجہاں بڑے زمینداروں کے پاس وسیع رقبے اور زمینیں ہوتی ہیں اور کسانوں، مزارعین اور مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں ۔ جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے زمین کی تقسیم غیر منصفانہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیاں فاصلہ بڑھتا ہے ۔
جاگیردار خاندانوں کا اثرورسوخ بہت زیادہ ہے ۔یہ لوگ نہ صرف زمین کے مالک ہیں بلکہ دیہی علاقوں کی سیاست اور معیشت پر بھی ان کا کنڑول ہے۔بہت سے جاگیردار سیاست میں بھی سرگرم ہیں اور اہم سیاسی جماعتوں میں اعلٰی عہدوں پر فائز ہیں۔ ان کی سیاسی طاقت ان کے زمینوں پر قبضے کی بنا پر مضبوط ہوتی ہے اور اسمبلیوں میں ان کی بلواسطہ یا بلا واسطہ نمائندگی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ قانون سازی میں بھی حصہ دار ھوتے ہیں۔ یہی وجہ ھے کہ ماضی میں بڑی بڑی جاگیروں کو کم کرنے کی کوششیں ھوئی یعنی زمینوں کی تقسیم اور اصلاحات کی گئی لیکن عملی طور پر اس نظام اور سوچ کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل نہیں رہی۔
جاگیرداروں کا سیاست میں اثرورسوخ جمہوریت کو بھی متاثر کرتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے سیاست میں شامل ہوتے ہیں اور یہی ایک وجہ ھے ملک میں پائیدار جمہوری حکومت اور رویے کی کمی کا۔ اس کے ساتھ ہی بدعنوانی کا رجحان زیادہ ہوتاہے کیونکہ جاگیردار اپنی طاقت کا استعمال کرکے قوانین کو اپنے حق میں موڑ لیتے ہیں۔
دوسری جانب کسان اور مزدوروں کو جاگیرداروں سے مناسب اجرت نہیں ملتی۔ بلکہ انکو معاشی طور پر محکوم رکھا جاتا ھے تاکہ دو وقت کی روٹی کی حصول سے زیادہ سوچ بھی نہ سکے۔ اور یوں ان کے بنیادی حقوق کا خیال رکھنا تو درکنار بلکہ ان حقوق کو پامال کیا جاتا ھے۔ جاگیردارانہ نظام کے تحت زمین پر کام کرنے والے کسان اکثر قرضوں میں ڈوبے ہوتے ہیں اور ان کو گردشی قرضوں سے نجات نہیں ملتی۔ اور یوں غربت و استحصال انکی مقدر ٹھہرتی ہیں۔
علم و تعلیم بہت سے معاشرتی برائیوں اور ناانصافی کے خاتمے کیلئے بہت ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں معیاری تعلیم کو عام لوگوں تک پہنچانے میں کئی روکاوٹیں حائل رہی ھے. دیہی علاقوں میں تعلیمی اور صحت کی سہولیات کی کمی کی بڑی وجہ جاگیردارانہ نظام ہے، کیونکہ بڑے زمیندار ان شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے بجاۓ اپنی دولت میں اضافہ پر توجہ دیتے ہیں۔
دیہی علاقوں میں اکثر سکولوں اور تعلیمی اداروں کی کمی ہوتی ہے۔ جو سکول ہوتے ہیں وہ بھی عموماً مناسب سہولیات سے محروم ہوتے ہیں۔دیہات کے لوگ اکثر معاشی طور پر بھی کمزور ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ بچوں کو سکول بھیجنے کی بجاۓ انہیں کام پر لگاتے ہیں تاکہ وہ خاندان کی مالی مددکرسکیں۔
جاگیردار طبقہ اپنی زمینوں پر کام کرنے والے لوگوں کو تعلیم یافتہ نہیں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اگر یہ غریب لوگ تعلیم حاصلِ کریں تو انکی زمینوں کے دیکھ بھال کے علاؤہ انکی اجارہ داری ماننے والے نہیں ھونگے اور یوں تعلیم یافتہ معاشرہ جاگیردارانہ نظام کی دیواروں کو دھڑام سے گرا دیگا۔
جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے ثقافتی پسماندگی بڑھتی ہے۔ روایتی رسم ورواج اور غلط سوچ کو فروغ ملتا ہے ۔ جبر و استحصال سماجی رویہ بن جاتا ھے۔ معاشرے میں عدم مساوات پروان چڑھتی ہے۔
اگر چہ اس جدید دور میں جہاں میڈیا کا کردار اہم ھے لیکن اسمیں بھی ھم دیکھ سکتے ہیں کہ ان جابرانہ قوتوں کا میڈیا پر کتنا کنٹرول ھے اکثر انکی جبر کی خبریں نہیں آتی ھیں۔ کہیں ایک آدھا آئے بھی وہ بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اس کو دبایا جاتاہے۔
جاگیردارانہ نظام پاکستان کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس نظام اور سوچ کی وجہ سے سماجی، اقتصادی اور سیاسی سطح ہر کئی مسائل پیدا ہورہے ہیں ۔ اس نظام کے خاتمے کےلئے موثر اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ عوام کی زندگی بہتر ہوسکے اور ملک میں مساوی ترقی ممکن ہو۔ لیکن اس سب کو ممکن بنانے کے لیے ضروری ھے کہ محکوم طبقہ یکجا ھو کر اس استحصالی نظام کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں۔