ڈبل شاہ کا نگران بلوچستان

(بایزید خان خروٹی )

بلوچستان کے سابق ارکان اسمبلی کو 7 کھرب 25 ارب روپے اپنے حلقے بہتر بنانے کیلئے جاری کۓ گۓ۔یہ رقم جاری کرنے اور کاغذی دنیا میں خرچ کرنے کی خبر میرے لئے حیران کن اور مزاحیہ ہے.

حیران کن اس لیے کہ پانچ سال بعد میڈیا کو اس بات کی خبر ہوئی کہ بلوچستان میں اتنی بڑی رقم دن کے اجالے میں لوٹ لی گئی اور مزاحیہ اس لیے کے مین سٹریم میڈیا کو 5 سال تک یہ خبر نہ ملی جبکہ ان وارداتی معاملات کو تسلسل سے سوشل میڈیا پر پانچ سال سے میں رپورٹ کر رہا ہوں لیکن میڈیا سمیت کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا جس کی بنیادی وجہ رائے عامہ کی کمی کے شکار اس صوبے میں نظام کے ساتھ کئے گئے کھلواڑ کو قانونی شکل دینا ہے. یہاں کرپشن فیشن کی شکل ہے المیہ ہے کہ کرپٹ حکومتی وزیر یا سکریڑی کرپشن کے الزامات پر شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے ہنسی مذاق میں بات کو ٹال دیتا ہے .پیسے کی لت نے ہر ادارے کو کرپٹ اور متنازعہ بنا دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

یہاں قانون سے ڈرنا تو دور کی بات ہر شخص قانون کو قانون تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔

کل سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ بلوچستان کی نگران کابینہ بن رہی ہے، نگران وزیراعلی بلوچستان جو نام نہاد اپوزیشن کی تجویز کے مرہون منت ہے سے وزارتوں میں جمعیت علماء اسلام کے بعد اے این پی کے ممبر پارلیمانی کمیٹی اور دیگر نے بھی حصہ مانگ لیا ہے. نگران وزراء کے انتخاب کیلئے پھر ایک سیاسی دنگل سجا دیا گیا ہے جب کہ نگران سیٹ اپ کو غیر سیاسی رکھنے کا حکم آئین پاکستان دیتا ہے۔ اس بار وزراء کے نام پر ٹھیکیدار، پٹواری، این جی اوز ، ہاسٹل چلانے والے، ڈسپنسرز سمیت ڈمی کردار من پسند لوگوں کو کابینہ کے نام پر جمع کیا گیا ہے جن کو نظام کے الف ب کا پتا نہیں ان پر سرمایہ کاری کرنے والے اصل حکمران انکی اڑ میں حکومت چلائیں گے جبکہ یہ لوگ مخصوص کردار کی حد عہدوں پر بیٹھ کر وزیر کے طور پر کردار نبھانے کی کوشش کریں گے۔

اس صوبے کی کیا قسمت ہوگی کہ جس میں عوامی محفلوں میں پہلے پارلیمانی نظام کیلئے انتخاب کو عوامی منشاء کے برعکس بحث و مباحثے اور عام لوگوں کو پارلیمانی نظام سے بدظن کرنے والے کا کہنا ہوتا ہے کہ یہاں گورنر کا منصب برائے فروخت، وزیراعلی کا منصب برائے فروخت، ممبر اسمبلی کی نشست برائے فروخت، وزیر کا منصب برائے فروخت، سینیٹر کا منصب برائے فروخت، سیکرٹری کا منصب برائے فروخت یہاں کے سرکاری ملازمین سیکریٹری، کمشنر، ڈپٹی کمشنر کا منصب تک برائے فروخت سرکاری ملازمت نوکری برائے فروخت ہے جب یہ سب کچھ فروخت ہوگا. اس کے بعد پانچ سال بعد ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اپنے نمائندوں کا احتساب کریں انکی بات سچ ثابت کرنے نظام اپنا کردار ادا کررہا ہے کیونکہ اَب پَچھتائے کیا ہوت جَب چِڑیاں چُگ گَئیں کِھیت، کیا عام آدمی کے ہاتھ میں ان کرپٹ لوگوں کے خلاف کوئی طاقت یا احتسابی ادارہ ہے ؟ یا اس کے بعد کس کو یقین ہوگا کہ میرٹ اور قانون کی پاسداری یا پھر ترقیاتی منصوبوں کے نام پر خرچ ہونے والا 7 کھرب 25 ارب روپیہ صحیح خرچ کیا گیا ہوگا کہ شروع سے نگران کا انتخاب نگران سے کچھ لے کر کیا جائے تو نگران، نگرانی کے بجائے نقب زنی کریگا وہ ریاست یا پھر عوام کے مفادات کا خیال نہیں رکھے گا کیونکہ وہ خرچ کرنے والا اپنے خرچ کردہ پیسے کو ڈبل کرنے کے چکر میں ہوتا ہے .

اور یوں یہ ساری گیم ڈبل شاہ کے گرد گھومتی رہے گی۔ پانچ سال بعد پھر میڈیا کے ذریعے معلوم ہوگا کہ 7 کھرب 25 ارب روپے آپ کے ارکان اسمبلی کو دئیے گئے ہیں آپ اس پر آواز اٹھائیں۔ اس کے بعد آپ جس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں وہ ہنستے ہوئے آپ کو یہ بتانے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرے گا کہ انہوں نے ادائیگی کر کے لوٹا ہے عہدے خریدے ہیں منصب خریدے ہیں اور نوکریاں خریدی ہیں جس کی انہوں نے ادائیگی کی ہے آپ بے بسی سے یہ سب دیکھتے، سنتے اور شرماتے رہیں گے کہ ان کی تو بات میں وزن ہے کیونکہ اتنی بڑی کرپشن دیدہ دلیری سے تنہا کوئی نہیں کر سکتا .

یہی کچھ نگران کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے زبان زد عام ہے وطن سے محبت کا تقاضا ہے کہ تمام تر تحفظات افواہوں کو جھوٹ ثابت کرنے کیلئے ایک ایسی کابینہ کی تشکیل دی جائے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو جس میں ٹھیکیدار، نرس، اردلی، ہاسٹل وارڈن کے بجائے اہل لوگ شامل ہوں جن کو ریاست کی عزت و ابرو کے ساتھ اپنی عزت نام و آبرو کا بھی خیال ہو اور عام آدمی کو کل اس کے حلقے میں کام نہ کرنے کی صورت میں صداۓ احتجاج بلند کرنے میں آسانی ہو۔

نوٹ یہ تحریر پہلے چھوٹی چڑیا نامی فیس بک پیج پر شائع ہوچکی ہے۔