شہریار محسود
پاکستان اور افغانستان کے درمیان انتہائی تیزی سے بڑھنے والی تلخیوں کے بعد یوں لگ رہا ہے کہ دنیا کی نظریں اس خطے کی طرف مڑ گئی ہیں۔ امریکی حکام پاکستان کے دورے بھی کر رہے ہیں۔ جبکہ امریکی صدر جوبائیڈن نے جمعرات 7 دسمبر کو کانگریس کو لکھے گئے خط میں اس بات کی تصدیق کی کہ امریکی فوجی اہلکار افغانستان سے باہر اپنی موجودگی برقرار رکھیں گے، جو خطے سے ممکنہ دہشت گردی کے خطرات سے مؤثر طریقے سے نمٹیں گے۔
بائیڈن نے لکھا، “امریکی فوجی اہلکار افغانستان سے باہر تیار کھڑے ہیں جو افغانستان سے امریکی سرزمین اور مفادات کو درپیش ممکنہ خطرات سے فوری طور پر نمٹیں گے۔”
پاکستان میں مبصرین امریکی دوروں کو افغان مہاجرین کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں کہ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان افغانوں کو واپس بھیجنے میں جلدی نہ کریں۔ 9/11 کے بعد علاقے میں آنے والی تبدیلیوں اور امریکی پالیسیوں کو بطورِ ایک قبائلی کے جتنا سمجھا ہے اس کے تناظر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ امریکی دکھاتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔
بظاہر افغان مہاجرین کی واپسی ہی امریکی ایجنڈے کا محور ہو سکتا ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ جتنی تیزی سے پاک افغان تعلقات بدلے ہیں اس میں امریکیوں کو ایک بڑا موقع نظر آرہا ہے۔ کہنے کو تو امریکا افغانستان سے شکست کا داغ لے کر نکلا ہے لیکن جاتے ہوئے خطے میں سلگتی آگ چھوڑ گیا ہے جس کے شعلے سالوں تک بھڑکیں گے۔
ہمیں ایک بات سمجھنی ہے کہ افغانستان میں کوئی بھی نظام ہو، انسانی حقوق کی جتنی بھی خلاف ورزیاں ہوں، یہ امریکا کا درد سر نہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ امریکا اخلاقی اقدار کا پاس رکھتا ہے تو وہ فلسطین میں اسرائیل کے بدترین مظالم کے لیے امریکی حمایت بلکہ مدد کو سامنے رکھ لے۔
بعض مبصرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امریکی در پردہ افغان طالبان کی مدد کر رہے ہیں جو کہ اس حد تک درست ہو سکتا ہے کہ وہ خطے کے ممالک کو افغانستان میں موجود ممکنہ خطرات کی طرف راغب کریں۔ امریکا کے مفادات یہاں استحکام سے ہرگز نہیں جڑے ہیں بلکہ اس وقت افغانستان میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپیاں امریکیوں کے لیے کسی طور بھی اطمینان کا باعث نہیں ہو سکتیں۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی کیا کرنا چاہیں گے؟
اس کا جواب آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ مشکل اس لحاظ سے کہ اس وقت ہم امریکا پر ہی تکیہ کرنے پر مصر ہیں ورنہ امریکیوں نے کئی سالوں سے ‘تکیہ کھینچ رکھا ہے’ اور امریکی بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ہم ان کو چین کی جھولی میں جانے کے نام پر ڈرا تو سکتے ہیں لیکن جائیں گے نہیں کیونکہ ہم امریکی معاشرے سے اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ وہاں سے نکلنے میں موت پڑتی ہے۔ اب آتے ہیں آسان جواب کی طرف تو افغانستان میں موجودگی کے دوران امریکا نے کافی کوششیں کیں کہ پاکستان براہ راست افغانستان میں ہونے والی جنگ کا حصہ بنے اور اس حوالے سے افغانستان میں موجود امریکی فوجی ذمہ داروں کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ یعنی موجودہ حالات میں امریکا کو موقع مل رہا ہے کہ وہ دور بیٹھ کر تماشا دیکھنے کے ساتھ پیٹ بھی تھپتھپاتا رہے اور کام بھی نکالتا رہے۔
سوال پھر یہ بھی پیدا ہوگا کہ کیا امریکا پوری طرح ہمارے ساتھ رہے گا؟ اس کا جواب میری نظر میں ناں میں ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو ایک خواب سے ضرور بیدار ہونے کی ضرورت ہے کہ امریکا پاکستان کو دباؤ میں ضرور رکھے گا لیکن ہمیں بنیادی نقصان نہیں پہنچنے دے گا۔ اس حساس نقطے پر زیادہ کچھ نہیں کہنا لیکن اگر خطے کا نیا جغرافیہ امریکی منصوبوں کا حصہ ہے تو پھر اس سے بہترین موقع ان کو پھر کبھی نہیں ملنے والا اور ہمارے لیے سب سے مشکل بات یہ ہو گی کہ چین کے مفادات اس وقت تک افغانستان سے پوری طرح جڑ گئے ہیں اور اس کی وجہ بھی ہماری غلط پالیسیاں ہیں۔
چین نے سی پیک کے ذریعے پاکستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی اور ابھی کافی کچھ کرنا تھا کہ باجوہ ڈاکٹرائن سامنے آتا ہے اور عمران خان کے ذریعے سی پیک کو ‘پیک’ کر دیا جاتا ہے۔ ذاتی طور چین سے روابط رکھنے والے جن جن ذرائع سے ملا ہوں وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ چینی ہم سے سخت ناراض ہیں۔ تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟
ہم کچھ بھی کہتے رہیں لیکن ہوتا وہی ہے جو صاحبِ طاقت کرتے ہیں اور کرتے رہے ہیں لیکن عرض ضرور کریں گے کہ افغانستان کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات و حالات کو فوری طور پر بریک لگانے کی ضرورت ہے۔ ایک بار سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم آگ کو تیل سے بجھانے کی کوشش تو نہیں کر رہے؟ بیشک اس وقت پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے حالات انتہائی خراب ہیں لیکن حل کے لیے افغان ذمہ داروں کے ساتھ بیٹھ کر سوچا جائے۔ اس وقت بھی افغانستان سے ایسی خبریں آ رہی ہیں جو کہ ہمارے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ ہم کچھ سننے کے موڈ میں نہیں ہے۔
اگر موجودہ افغان عبوری حکومت پاکستان میں بدامنی کو کم کرنے میں مدد کے لیے تیار ہے تو ہمیں ملک کے اندرونی حالات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس وقت شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص سول محکموں کو فعال بنانے کی ضرورت ہے جو اس وقت خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بالکل غیر فعال ہیں۔
چین کو یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ ہم جو کہہ رہے ہیں وہی کریں گے، کل کو کوئی نیا ڈاکٹرائن نہیں آنے والا، اور اگر ہم ایسا کرنے کے لیے تیار ہوئے تو خطے میں آنے والی شدید ترین مشکلات سے بچ سکتے ہیں حالانکہ اس وقت اس بات کے آثار نظر نہیں آ رہے کہ ہم نئے پیدا ہونے والے حالات کے حوالے سے کچھ اور سوچیں گے بلکہ اس وقت ہم کشتیاں جلاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں جو کہ پاکستان کے مستقبل کے لیے درست پالیسی ہرگز نہیں ہو سکتی۔ یاد رکھیں کہ افغان مسئلے کے ساتھ اب ڈالرز کے قطرے تو مل سکتے ہیں جو صبح سے شام تک پیاس بجھانے کا کام کریں گی لیکن ویسے نہیں ہونا جو کبھی ہوتا رہا ہے۔
نوٹ یہ تحریر پہلے وی نیوز پر شائع ہوچکی ہے.