پشاور: عوام کے محافظ ہی لٹیرے بن گئے ، جن کا فرض شہریوں کی مدد کرنا تھا وہ اب خود جرائم میں ملوث ہو گئے۔
خیبر پختون خوا پولیس میں رواں سال 30 پولیس اہلکاروں پر مختلف جرائم میں مقدمات درج کیے گئے جبکہ 94 اہلکاروں کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا۔
دوسری جانب پشاور میں منشیات کا حصول انتہائی آسان ہو گیا، ایک فون کال پر من پسند نشہ مطلوبہ جگہ پر پہنچائے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔
نشے کی لت کو پورا کرنے کے لیے نوجوان مختلف جرائم کرنے لگے ہیں۔گزشتہ 3 ماہ کے دوران پولیس نے 100 سے زیادہ جرائم میں ملوث نشے کے عادی نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے۔
منشیات کی لت نے پشاور کے 19 سالہ اسکندر خان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا۔
ضلعی انتظامیہ کے سرکاری جامعات میں ڈوپ ٹیسٹ کرانے کے فیصلے پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
منشیات فروشوں کے کھلے عام دھندے کو روکنے میں پولیس بھی بے بس نظر آ رہی ہے۔
پولیس اور اینٹی نارکوٹکس فورس کی جانب سے زیادہ سے زیادہ مقدار میں منشیات ضبط کی جا رہی ہے۔
پولیس حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس اور اینٹی نارکوٹکس فورس سمیت منشیات کی روک تھام کے ذمے دار اداروں کی یومیہ کارروائیوں کے باوجود منشیات کا کاروبار ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
پشاور میں اندرونِ شہر کے اکثر علاقوں میں اسٹریٹ لائٹس خراب ہونے سے راہزنوں کی چاندی ہو گئی۔
گلی محلے اندھیرا چھاتے ہی تاریکی میں ڈوب جاتے ہیں، لٹیرے تاریکی کا فائدہ اٹھا کر شہریوں کو لوٹنے لگے۔
پولیس نے اسٹریٹ لائٹس کے فقدان کو جرائم میں اضافے کی بڑی وجہ قرار دے دیا۔
اُدھر شہری میئر پشاور کے اسٹریٹ لائٹس کی جلد تنصیب کے وعدوں پر عمل درآمد کے منتظر ہیں۔