بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل تربت میں حراست کے دوران بالاچ مولا بخش نامی شخص کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کےعملے کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
سی ٹی ڈی کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر برطانوی خبررساں ادارے کو مقدمے کے اندراج کی تصدیق کرتے ہوئے ایف آئی آر کی کاپی بھی فراہم کی۔
انہوں نے بتایا کہ ہفتے کے روز مقدمہ تربت سٹی پولیس سٹیشن میں مقتول کے والد مولابخش کی مدعیت میں درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں سی ٹی ڈی کے ریجنل آفیسر، ایس ایچ او، تفتیشی آفیسر اور انچارج لاک اپ کو نامزد کیا گیا ہے۔
صوبائی نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ بالاچ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ساتھ مقابلے میں جان سے چلے گئے۔
جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ جس شخص کے لیے لانگ مارچ کیا جا رہا ہے اس نے خود 11 دہشت گرد حملوں کا اعتراف کیا۔
ان کے بقول لواحقین کے مطالبے پر تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی اور اب ایف آئی آر بھی درج ہو گئی۔
کوئٹہ میں آج ایک نیوز کانفرنس میں بھی نگران وزیر اطلاعات نے کہا کہ ریاست کی شفقت کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔
مقدمے کے اندراج کے لیے تربت میں 13 روز تک دھرنا دیا گیا اور مقدمہ درج نہ ہونے پر تربت سے کوئٹہ کے لیے لانگ مارچ شروع کیا گیا۔
مارچ کے شرکاء بدھ کو کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت سے نکلے اور رات کو پنجگور پہنچ کر کیمپ قائم کیا۔
جمعرات کو مارچ کے شرکاء نے پنجگور شہر میں ریلی نکالی اور مختلف شاہراہوں پر گشت کے بعدمظاہرہ کیا۔احتجاج میں سول سوسائٹی کے علاوہ بڑی تعداد میں خواتین نے بھی شرکت کی۔مظاہرین نے لاپتہ افراد کی تصاویر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر اُن کی بازیابی کے مطالبات درج تھے۔
دھرنے کی متحرک سمی دین بلوچ کے مطابق لانگ مارچ کے شرکاء گریشہ سے بجانب ضلع خضدار کے علاقے نال روانہ ہوگئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں انہوں نے کہاکہ لانگ مارچ شرکاء نے دو روز پنجگور میں قیام کیا جہاں گذشتہ روز ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔