نازیہ
بہت پہلے سے ارادہ تھا کہ اپنے قبائلی اضلاع میں اعلیٰ تعلیم کی صورتحال پر کچھ لکھ لوں تاہم پھر خیال آیا کہ کیوں نا پہلے پرائمری، مڈل اور ثانوی تعلیم کے مسائل پر بات کی جائے کیونکہ جب بنیادی تعلیم کا ڈھانچہ کمزور ہوگا کہ تو اعلیٰ تعلیم کیا خاک ٹھیک ہو گی۔
اس تحریر میں ہم نے ابتدائی تعلیم سے لیکر اعلیٰ تعلیم تک کے مسائل پر بات کی ہے، ذرا غور فرمائیں!
پرائمری یا ابتدائی تعلیم
خیبر پختونخوا کے ضم اضلاع کے حوالے سے مرتب کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ان اضلاع میں 79 فیصد لڑکیاں اور 69 فیصد لڑکے پانچویں جماعت پہنچنے سے پہلے ہی تعلیم کو نا چاہتے ہوئے الوداع کہہ دیتے ہیں۔ اگر یہ صورتحال رہی تو پھر کون ثانوی تعلیم کے لیے بڑی تعداد میں قدم بڑھائے گا؟
ثانوی تعلیم
ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (ای ایم آئی ایس) کی رپورٹ کے مطابق مڈل اور ثانوی تعلیم کی صورتحال بھی انتہائی ابتر ہے اور لڑکیوں کی اس مقام پر تعلیم کو الوداع کہنے کی شرح 50 فیصد بتائی جاتی ہے۔ بندہ اخر کس کس مشکل کا رونا روئے کیونکہ رپورٹ میں سکولوں کی خستہ حال عمارت کے ساتھ ساتھ بجلی، پینے کا صاف پانی اور واش رومز کی سہولیات تک موجود نہیں ہے۔
اعلیٰ تعلیم
ہمارے قبائلی اضلاع میں ایک طویل انتظار کے بعد 2016 میں فاٹا یونیورسٹی کا سنگ بنیاد تو رکھ دیا گیا مگر پھر بھی زیادہ تر قبائلی اضلاع کی لڑکیاں یونیورسٹی کے ہوتے ہوئے پڑھنے سے محروم ہیں۔ رواں تعلیمی سال میں 6 سو سے زائد لڑکوں اور لڑکیوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مذکورہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے۔
آپ خود سوچیں کہ ضم اضلاع میں اعلیٰ تعلیم کی طلب کتنی ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان 6 سو سٹوڈنٹس میں لڑکیوں کی تعداد محض 22 ہے جس کی بنیادی وجہ دیگر اضلاع سے لڑکیوں کا یونیورسٹی آنا اور یہاں ہاسٹل میں رہائش پذیر ہونا ایک مشکل عمل تھا، ہے اور رہے گا۔ اس وقت فاٹا یونیورسٹی میں لڑکیوں کی تعداد 150 کے لگ بھگ بتائی جا رہی ہے جن میں ضم اضلاع کی لڑکیوں کے ساتھ دیگر علاقوں کی لڑکیاں بھی شامل ہیں جبکہ لڑکوں کی تعداد ایک ہزار تک بتائی گئی ہے۔
قبائلی اضلاع کی لڑکیوں کا حصول تعلیم کے لئے اپنے گھروں سے دو تین سال تک گھر سے دور رہنا ایسا ہے جیسا کہ وہ کوئی گناہ کرنے جا رہی ہو۔ اکثر والدین اپنی بیٹیوں کو ہاسٹل میں رہنے کی اجازت نہیں دیتے جبکہ انہیں یہ فکر ہوتی ہے کہ اگر بیٹی کسی شہر کے ہاسٹل میں رہے گی تو لوگ کیا کہیں گے۔
میں سمجھتی ہوں کہ اگر ہر قبائلی اضلاع میں نا صحیح ایک یا دو اضلاع میں لڑکیوں کے لیے الگ یونیورسٹیز کا قیام عمل میں لایا جائے، جس کا فاصلہ متعلقہ اضلاع کے درمیان کم ہو، تو ممکن ہے کہ ضم اضلاع کی بچیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع مل جائیں گے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ فاٹا انضمام کے بعد بھی یہاں کوئی تبدیلی دیکھائی نہیں گئی، جو سسٹم انضمام کے وقت چل رہا تھا وہی سسٹم انضمام کے بعد میں رواں دواں ہے۔
اب آپ بتائیں کیا یہ سراسر ظلم نہیں ہے کہ ان 75 سالوں میں تعلیم میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے اگر آئی بھی ہے تو بہت کم۔ میرا آپ سب سے ایک اہم سوال بنتا ہے کہ آیا ہم پاکستان کا حصہ نہیں ہے یا آیا ہمیں بہترین تو دور کی بات بنیادی تعلیم حاصل کرنے کا بھی کوئی حق حاصل نہیں ہے؟
میرا دل تو خون کے آنسو تب روتا ہے کہ قبائلی اضلاع کے خواتین میں قابلیت، ذہانت اور محنت کے لحاظ سے ملک کے کسی بھی دوسرے صوبے کے طلبہ و طالبات کے نسبت کوئی کمی نہیں ہے تو پھر یہ تضاد کیوں؟ بلکہ یہاں کے طلبہ و طالبات نے ہمیشہ مختلف قسم کے مقابلے کے امتحانات میں اپنی نمایاں کارکردگی دکھائی ہے اور اپنی قابلیت اور ذہانت کا لوہا بھی منوایا ہے۔ اب اپ خود سوچیں اگر ان کو اچھی تعلیمی صورتحال مہیا ہوتی تو ان کی مثالیں دی جاتی مگر ہمارے سابق اور موجودہ حکمرانوں کو جتنا توجہ یہاں کے شعبہ تعلیم اور اس کے اداروں پر مرکوز کرنی چاہیے تھی انہوں نے دی ہی نہیں۔
تعلیمی صورتحال تو ویسے بھی خستہ حال تھی کہ باقی کسر دہشت گردوں نے پوری کر دی جنہوں نے تعلیمی اداروں پر بھی حملے شروع کر دیے تاکہ پختونوں کے بچوں کو علم کی روشنی سے محروم کرکے جہالت کے اندھیروں میں مزید دھیکل دیا جائے۔ ان دہشت گردوں نے کئی اضلاع کے سکولوں اور کالجوں کو بموں سے اڑایا۔ ہم اگر صرف چند سالوں کے دوران ہونے والی کارروائیوں پر ایک سرسری نظر ڈالے تو آپ بھی حیران رہ جائیں گے۔
اخر میں بس اتنا کہوں گی کہ ہمارے قبائلی اضلاع میں تعلیمی صورتحال پرائمری سے لے کر اعلی تعلیم تک بہت زیادہ مسائل کا شکار ہے جسے حل کرنا صوبائی حکومت کی اولین ترجیح ہے تاکہ پختونوں کے بچوں کو بھی تعلیم کی روشنی سے روشناس کیا جا سکے۔
اگر قبائلی نوجوانوں کو تعلیمی ماحول مہیا کیا جائے تو وہ بھی اپنے خاندان، علاقے اور ملک کی ترقی میں اتنا ہی اہم کردار ادا کرسکتے ہے جتنا کہ دیگر صوبوں کے نوجوان ادا کر رہے ہیں۔ تعلیم کے ذریعے ہی خواتین کو اقتدار، روزگار، اور اپنا مستقبل سنوارنے کا موقع مل سکتا ہے جو قبائلی علاقوں کی ترقی میں ایک بڑا قدم ہو سکتا ہے۔
نوٹ:یہ تحریر پہلے ٹی این این پر شائع ہوچکی ہے.