کرک کےمقامی لوگوں کا تیل، گیس اور نوکریوں میں حصے کا مطالبہ

کلیم اللہ
چالیس سالہ محمد مطاہر چند ماہ پہلے اپنے بچوں سمیت خود کشی کرنے کے بارے میں سوچنے لگے تھے۔ وہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں تیل و گیس نکالنے والی کمپنی میں ملازمت کرتے تھے جس نے گزشتہ سال انہیں نوکری سے نکال دیا۔ اپنے ہی گاؤں کی زمینوں پر کام کرنے والی کمپنی کی ملازمت سے یوں اچانک بیروزگار کیے جانے سے دلبرداشتہ ہو کر انہوں نے اپنی زندگی ختم کرنے کا سوچا لیکن ان کی اہلیہ نے انہیں یہ انتہائی قدم اٹھانے سے باز رکھا۔

محمدطاہر کا تعلق ضلع کوہاٹ سے ہے تاہم وہ پچھلے 15 سال سے کرک کے گاؤں مکوڑی میں مستقل طور پر رہائش پذیر ہیں۔ وہ اس علاقے میں کام کرنے والی ہنگری کی کمپنی ‘مول’ میں پچھلے 13 سال سے مزدوری کر کے سات افراد پر مشتمل اپنے کنبے کی کفالت کر رہے تھے۔ چونکہ ان کا انحصار اسی تنخواہ پر تھا اس لیے نوکری سے برطرفی ان کے لیے بے حد پریشان کن تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ ”جب لوگوں کو نوکری سے نکالا جا رہا تھا تو کمپنی کے حکام نے انہیں ملازمت برقرار رہنے کی یقین دہانی کرائی تھی کیونکہ وہ کمپنی کے جس پلانٹ پر کام کرتے تھے وہ انہی کے گاؤں مکوڑی کی زمین پر قائم تھا جس کے متعدد لوگ کمپنی میں ملازم تھے۔ تاہم آخری وقت پر انہیں یہ کہہ کر نوکری سے فارغ کر دیا گیا کہ ان کا تعلق مکوڑی کے بجائے کوہاٹ سے ہے اس لیے وہ غیرمقامی ہیں اور فیکٹری میں کام نہیں کر سکتے۔”

نوکریاں ختم ہونے کے بعد اہل علاقہ نے کمپنی کے پلانٹ پر احتجاج کیا۔ اس موقع پر اسسٹنٹ کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے لوگوں کویقین دہانی کرائی کہ انہیں نوکریوں پر بحال کروا دیا جائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور یہ لوگ آج بھی بیروزگار ہیں۔ ان 27 میں سے 19 افراد مکوڑی میں واقع پلانٹ پر کام کرتے تھے جبکہ آٹھ افراد اسی کمپنی کے دیگر کنوؤں پر ملازم تھے۔

نوکری سے نکالے جانے والے ان لوگوں میں چالیس سالہ گوہر جان بھی شامل ہیں جن کا تعلق کرک کی یونین کونسل گرگری میں وربشی نامی گاؤں سے ہے جہاں کمپنی کا ایک کنواں قائم ہے۔ 2006 میں مول کمپنی نے انہیں اس کنویں پرماہانہ 2400 روپے اجرت پر نوکری دی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے 16 سال تک کمپنی میں ملازمت کی ہے اور اب عمر کے اس حصے کو پہنچنے والے ہیں جہاں ان کے لیے کہیں ملازمت ڈھونڈنا اور سخت مزدوری کرنا ممکن نہیں۔ نوکری ختم ہونے کے بعد ان کے معاشی حالات بگڑ گئے ہیں اور وہ ڈیڑھ لاکھ کے مقروض ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 2009 میں کمپنی نے ان کی آٹھ کنال زمین سے مٹی کھودی تھی جس کے بدلے میں انہیں کوئی معاوضہ تو نہیں ملا لیکن کمپنی کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی جاتی رہی کہ ان کی نوکری قائم رہے گی۔ اب ناصرف ان کی نوکری جا چکی ہے بلکہ مٹی نکالے جانے کے بعد زمین بھی بنجر ہو گئی ہے جس پر وہ کوئی فصل بھی نہیں اگا سکتے۔ ان حالات میں گوہر جان شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔

ضلع کرک کی تحصیل گرگری میں مول کمپنی 2002 سے تیل و گیس نکالنے کا کام کر رہی ہے۔ حکومت پاکستان نے اسے یہ ٹھیکہ 2007 میں دیا تھا۔ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کی ویب سائٹ کے مطابق اس کمپنی کے پاس منزالائی گیس فیلڈ میں ایک ریسرچ سینٹر، ایک تشخیصی اور 9 ترقیاتی کنویں ہیں۔ اس فیلڈ کی اوسط یومیہ پیداوار 16.19 ایم ایم ایس سی ایف گیس، 183.53 بی بی ایل کنڈینسیٹ اور 2.31 ٹن ایل پی جی ہے۔ یہ کمپنی علاقے میں 12 کنوؤں کے ذریعے تیل و گیس نکال رہی ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق یہ کمپنی مقامی لوگوں میں ناصرف ان پڑھ لوگوں کو مزدوری نہیں دیتی بلکہ تعلیم یافتہ مقامی افراد پر بھی اس کی ملازمت کے دروازے بند ہیں۔

گرگری گاوں سے تعلق رکھنے والے 32 سالہ جیالوجسٹ محمد حمید کا کہنا ہے کہ جب مول کمپنی میں جیالوجی سے متعلق کسی نوکری کا اعلان ہوتا ہے تو وہ اس کے لیے درخواست دے دیتے ہیں لیکن انہیں یہ نوکری کبھی نہیں ملی۔ وہ اس شعبے میں آٹھ سال کام کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہر مرتبہ ان پر کسی غیرمقامی امیدوار کو ترجیح دے دی جاتی ہے۔ وہ اپنا اصل نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں کمپنی آئندہ نوکری کے لیے ان کے نام پر غور نہیں کرے گی۔

گرگری سے تعلق رکھنے والے 31 سالہ محمد امجد نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور ایک مقامی نجی سکول میں دس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر نوکری کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ان کے علاقے میں تیل و گیس نکالنے والی کمپنیاں آئیں تو یہاں کے لوگوں نے تکنیکی تعلیم کی طرف توجہ دی اور اسی لیے خود انہوں نے بھی انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی لیکن اب وہ اپنے اس فیصلے پر پچھتاوے کا شکار ہیں۔

حمید کی طرح امجد نے بھی مول کمپنی میں ملازمت یا انٹرن شپ کے لیے کئی مرتبہ درخواست دی لیکن کمپنی نے انہیں کبھی نہیں بلایا۔ امجد نے کئی مرتبہ کمپنی سے مطالبہ کیا کہ انہیں وہاں پر کام کرنے والے لوگوں کی تعداد، ان کی تعلیمی قابلیت اور ڈومیسائل کے حوالے سے معلومات فراہم کی جائیں۔ لیکن کمپنی یہ معلومات فراہم کرنے سے گریزاں ہے۔

انہیں یہ بھی شکوہ ہے کہ ان کے علاقے سے دریافت ہونے والے قدرتی وسائل کو دیگر صوبوں تک تو پہنچا دیا جاتا ہے لیکن مقامی لوگوں کو نہ تو ان کے وسائل میں سے حصہ دیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں نوکریاں ملتی ہیں۔

بانڈہ داؤد شاہ کی تحصیل کمیٹی کے سپیکر اور گرگری ولیج کونسل کے چیئرمین خانہ جان کے مطابق 2002 میں جب یہاں گیس دریافت ہوئی تو مول کمپنی نے علاقے کے لوگوں کو اس حوالے سے اپنے حقوق کا علم نہیں تھا۔ آج 20 سال کے بعد بھی اس علاقے میں بیشتر گھروں میں گیس نہیں ہے۔ جب لوگ گیس کا مطالبہ کرتے ہیں تو حکومت ان پر گیس چوری کا الزام عائد کرتی ہے۔

بانڈہ داودشاہ کی یونین کونسل ٹیری میں اس علاقے کا مرکزی بازار واقع ہے۔ یہاں سے گرگری میں تیل و گیس کے ان کنووں کا فاصلہ 33 کلومیٹر کے لگ بھگ ہے لیکن یہاں تک پہنچنے کے لیے دو گھنٹے سے بھی زیادہ وقت درکار ہوتا ہے کیوں کہ یہ سڑک مول کمپنی کی بھاری گاڑیوں کی آمدوروفت کے باعث ٹوٹ پھوٹ چکی ہے۔ کمپنی دس سال سے سڑک کی مرمت کا وعدہ کر رہی ہے جو پورا نہیں ہوا۔

بانڈہ داؤد شاہ کے 34 سالہ محمد ریاض 2010 سے اس کمپنی میں ویلڈر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے میٹرک تک تعلیم کے بعد ویلڈنگ میں ڈپلومہ کیا تھا لیکن اس کے باوجود انہیں فیکٹری میں ترقی نہیں ملی وہ الزام لگاتے ہیں کہ ان سے کم تعلیم یافتہ اور کم ہنر مند غیرمقامی لوگوں کو ناصرف بڑے عہدوں پر بھرتی کیا جاتا ہے بلکہ انہیں ترقی بھی آسانی سے مل جاتی ہے۔

ان کے خیال میں کمپنی میں ڈاؤن سائزنگ کا کوئی جواز نہیں کیونکہ اس کا منافع اتنا زیادہ ہے کہ انہیں 27 لوگوں کی 6 لاکھ روپے کی اجرت اس پر کوئی بوجھ نہیں تھی۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ فیکٹری میں کام کرنے والے لوگ یہاں پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی کے باعث بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور سوشل کارپوریٹ سیکٹر کا ادارہ ہونے کے باعث کمپنی کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کا اہتمام بھی کرے۔

ان کے دعوے کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ٹل بلاک کرک میں مول کمپنی کے پاس 2018 میں تیل و گیس نکالنے کے 12 کنویں کام کر رہے تھے۔ اگلے تین سال میں ایک اور کنویں کا اضافہ ہوا اور رواں سال ایک کنواں بند کر دیا گیا۔ اس طرح وہاں فعال کنوؤں کی تعداد اب بھی 12 ہے۔

کرک میں پانی کی قلت ہے اور زیرِ زمین پانی میں نمک کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے مکینوں کو دور دراز علاقوں سے پانی لانا پڑتا ہے اور اکثر یہ کام گھر کی خواتین کرتی ہیں۔ 2019-20 کے سماجی زندگی اور رہن سہن کے معیار سے متعلق 20-2019 کے قومی سروے کے مطابق کرک میں صرف 30 فیصد لوگوں کو پینے کے لیے اپنے گھروں میں لگے ہوئے نلکوں کا پانی میسر ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ علاقے میں تیل و گیس نکالنے کی سرگرمیوں نے زیرِ زمین پانی کو بری طرح آلودہ کر دیا ہے جس سے ان کی صحت خطرے میں پڑ گئی ہے۔

مقامی شہری مجاہد اسلام نے 2018 سے پشاور ہائیکورٹ میں مول پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی اور دیگر وفاقی و صوبائی اداروں کے خلاف ایک رٹ پیٹیشن دائر کر رکھی ہے جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ تیل کی تلاش کے دوران کرک، کوہاٹ اور ہنگو کے جن لوگوں کی املاک اور زمینوں کو نقصان پہنچا ہے اور جنہیں صحت کے خطرات اور ماحولیاتی انحطاط کا سامنا ہے وہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے معاوضے کے حقدار ہیں۔

درخواست میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ ایف آئی اے، وفاقی اور صوبائی ریونیو ادارے، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)، او جی ڈی سی ایل، اور انسداد بدعنوانی کے وفاقی اور صوبائی ادارے تیل اور گیس کی چوری میں ملوث ہیں۔ علاوہ کمپنی نے مقامی پولیس اور سیاستدانوں کی مبینہ ملی بھگت سے مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ علاوہ ازیں کمپنی نے کام کے لیے خیبر پختونخوا حکومت سے این او سی بھی نہیں لیا۔

تاہم کمپنی نے عدالت کو بتایا ہے کہ اس نے علاقے میں سماجی بہبود سے متعلق اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کی ہیں۔ عدالت میں جمع کرائے گئے کمپنی کے جواب میں کہا گیا ہے کہ چوری کے اس معاملے کی متعدد بار تحقیقات ہوچکی ہیں اور اس میں کمپنی بذات خود متاثرہ فریق ہے۔ علاوہ ازیں کمپنی کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے اور ماضی میں ہونے والی چند تحقیقات میں بھی بے قصور قرار دیا جا چکا ہے۔

زہریلے مواد اور ماحول کے لیے مضر فضلے کے اخراج کے حوالے سے کمپنی کے وکیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے ہی اس سلسلے میں ایک تفصیلی رپورٹ جمع کرا رکھی ہے۔ قانونی امور سے متعلق ای پی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے عدالت کو بتایا کہ بورنگ کے دوران سالڈ ویسٹ کے حوالے سے انہوں نے کمپنی سے مناسب تفصیل/ڈیٹا دینے کو کہا تھا لیکن کمپنی کے حکام نے معلومات دینے سے گریز کیا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر نے یہ بھی بتایا کہ علاقے میں پانی کی آلودگی کے حوالے سے مقامی لوگوں کی تشویش جائز ہے۔

عدالت نے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے چیف انجینئر کو ہدایت دی کہ وہ علاقے میں ایکسیئن کو تعینات کریں جو اس جگہ کا دورہ کر کے پینے کے پانی کے بارے میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔

اس پیٹیشن کے مرکزی درخواست گزار مجاہد اسلام خٹک کہتے ہیں کہ متعلقہ کمپنی ہر مرتبہ حیلے بہانوں سے کام لیتی ہے اور عدالت میں مکمل جواب جمع نہیں کراتی۔ انہوں نے عدالت سے یہ درخواست کی تھی کہ کمپنی سے یہ تفصیلات طلب کی جائیں کہ اس نے دوسرے علاقوں اور صوبوں کے مقابلے میں کرک کے کتنے مقامی لوگوں کو بھرتی کیا ہے لیکن چار سال گزر جانے کے باوجود کمپنی نے یہ تفصیل نہیں بتائی۔

کرک میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مول کمپنی ان کے دفتر کے عملے کے ساتھ علاقے کے وسائل اور مسائل سے متعلق کسی طرح کی معلومات کا تبادلہ نہیں کرتی۔ وہ انتظامیہ کی نااہلی کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس نے مقامی لوگوں کی تعداد اور کمپنی کی پیداوار کے بارے میں کبھی تفصیلات طلب نہیں کیں۔ وہ یہ یقین دہانی بھی کراتے ہیں کہ ایس این جی پی ایل مقامی لوگوں کو گیس مہیا کرنے کے لیے مختلف مراحل میں کام کر رہا ہے اور جلد گرگری سمیت تمام علاقوں میں گیس پہنچ جائے گی۔

ضلع کرک سے صوبائی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے رکن میاں نثار گل کاکاخیل مول کمپنی کو ایسٹ انڈیا کمپنی کا نام دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کا کام لوگوں کو تقسیم کر کے حکومت کرنے جیسا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”اس کمپنی نے ہمارے علاقے کو پسماندہ کردیا ہے کیونکہ یہ غیرمقامی کمپنی ہے اور سیاست دانوں سے اس کے مضبوط تعلقات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ ہمارے ساتھ شرپسندوں کا سا سلوک کرتے ہیں۔”

میاں نثار کے مطابق وہ اس علاقے کا منتخب نمائندہ ہونے کے باوجود کمپنی کے ڈائریکٹر جنرل سے اپنے مسائل کے حوالے سے بات نہیں کر سکتے کیونکہ ملاقات تو درکنار ان کا فون بھی نہیں سنا جاتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ”مجھے پشاور کی سڑکوں سے کرک کے تیل و گیس کی بو آتی ہے۔ کیونکہ مرکزی اور صوبائی حکومت کو کرک سے نکالے جانے والے تیل و گیس کی رائلٹی مل رہی ہے جبکہ ہمارا اپنا ضلع مزید پسماندہ ہوتا جا رہا ہے۔”

سجاگ نے مقامی لوگوں کو نوکریوں سے نکالے جانے اور دیگر الزامات کے حوالے سے مول کمپنی کا موقف لینے کے لیے اس کے ترجمان کو متعلقہ سوالات بھیجے جن کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ فی الوقت وہی معلومات دے سکتے ہیں جو کمپنی کی ویب سائٹ پر موجود ہیں اور کمپنی میں دیگر علاقوں اور صوبوں کی لوگوں کی تعداد اور دیگر باتوں پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔

یہ فیچر سٹوری لوک سجاک ویب سائیٹ پر 3 جنوری کو شائع ہوئی ہے.لنک نیچے دیا گیا ہے.
https://loksujag.com/story/oil-and-gas-feild-in-karak