کلیم اللہ
چھ سالہ شفاقت اللہ کا رنگ زرد ہے اور وہ اپنے ہم عمر بچوں کی نسبت بہت کمزور لگتا ہے۔ لیکن پچھلے مہینے کی 24 تاریخ کو وہ سکول سے واپس آ کر خوشی سے اچھل کود رہا ہے اور اپنے گھر والوں کو اپنی پڑھائی کے قصّے سنا رہا ہے۔ اسے خوش دیکھ کر اس کے چچا ساجد خان اسے گلے لگاتے ہیں اور دکھ بھری آواز میں کہتے ہیں کہ “اس معصوم کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اس کے پاس کتنا کم وقت رہ گیا ہے”۔
خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع کرک کی تحصیل تخت نصرتی کے گاؤں ڈاگ بانڈہ کا رہنے والا شفاقت اللہ خون کے کینسر میں مبتلا ہے جو ناقابل علاج سطح پر پہنچ چکا ہے۔
ساجد خان کہتے ہیں کہ اس کا آغاز دو سال قبل رات کے وقت ہوا جب ان کے بھتیجے نے جسم میں شدید درد کی شکایت کی۔ اگلے چند روز اس کے گھر والے مقامی معالجوں سے اس کا علاج کراتے رہے جس سے کوئی افاقہ نہ ہوا۔ بعدازاں وہ اُسے قریبی شہروں کے ہسپتالوں میں بھی لے گئے لیکن اس کی بیماری کی تشخیص تک نہ ہو پائی۔
اس کے والد شاہداللہ کوئلے کی کانوں میں مزدوری کرتے ہیں اور اپنی آمدنی سے بمشکل گھر کا خرچہ چلا پاتے ہیں۔ پچھلے سال کسی نہ کسی طرح پیسے جمع کر کے وہ اپنے بیٹے کو پشاور کے شوکت خانم کینسر ہسپتال لے گئے (جو ان کے گاؤں سے ایک سو 23 کلومیٹر شمال کی جانب واقع ہے)۔ وہاں 54 ہزار روپے مالیت کے ٹیسٹ کرانے کے بعد انہیں پتہ چلا کہ اسے جو مہلک مرض لاحق ہے اس کا اب کوئی علاج نہیں ہو سکتا۔
ڈاگ بانڈہ سے دو کلومیٹر دور واقع گاؤں شنواہ گڈی خیل میں رہنے والے 10 سالہ نزاکت خان کو بھی ایک سال سے بخار اور پاؤں میں شدید درد ہے جس کی وجہ سے وہ دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اپنی بیماری کے ابتدائی دنوں میں وہ درد کی وجہ سے سکول نہیں جانا چاہتا تھا تو اس کے گھر والے یہ سمجھتے تھے کہ وہ بہانے بنا رہا ہے لیکن جب اس کی تکلیف بڑھنے لگی تو اس سال مارچ میں اسے قریبی شہروں بنوں اور کرک میں واقع مختلف ہسپتالوں میں لے جایا گیا۔ وہاں تفصیلی معائنے سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ خون کے کینسر کا شکار ہو چکا ہے۔
اس کے گھر والے اب علاج کے لیے اسے ہر چند روز بعد پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں لے جاتے ہیں۔ اس کے والد عبدالکریم فوج سے حوالدار کے طور پر ریٹائرڈ ہوئے ہیں اور 15 ہزار روپے ماہانہ پنشن پاتے ہیں جس میں وہ بمشکل اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ “میرے بچے کا علاج (حکومت کے) صحت انصاف پروگرام کے تحت مفت ہو رہا ہے لیکن اسے پشاور لانے لے جانے پر آنے والا خرچہ بھی میری استطاعت سے باہر ہے”۔
خون کے کینسر کے ایک اور مریض 18 سالہ ذاکر علی شاہ ڈگرسر نامی گاؤں میں رہتے ہیں جو شنواہ گڈی خیل سے کچھ ہی فاصلہ پر واقع ہے۔ وہ ہر وقت اپنے سر کو ایک سفید ٹوپی سے ڈھانپے رکھتے ہیں کیونکہ مسلسل دوائیاں کھانے سے ان کے سر اور جسم کے تمام بال جھڑ چکے ہیں۔
اپریل 2021 میں شفاقت اللہ کے گھر والے اسے علاج کے لیے لاہور کے شوکت خانم کینسر ہسپتال میں لے گئے۔ اس کے چچا ساجد خان کہتے ہیں کہ وہاں اس کے معائنے کے دوران ڈاکٹروں نے ان سے سوال کیا کہ ان کے گھر میں پینے کا پانی کہاں سے آتا ہے۔ “جب میں نے انہیں بتایا کہ ڈاگ بانڈہ کے لوگ کنوؤں کا پانی پیتے ہیں تو انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ میرے بھتیجے کی بیماری کی وجہ یہی پانی ہو سکتا ہے”۔
نزاکت خان کے چچا حسن گیر کا بھی یہی کہنا ہے۔
ان کے مطابق کینسر کا علاج شروع ہونے کے بعد ان کے بھتیجے کی صحت کچھ بہتر ہونے لگی تھی لیکن ایک دن اس نے مقامی کنوئیں کا پانی پی لیا جس سے اس کی طبیعت پھر بگڑ گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ “جب ہم اسے علاج کے لیے پشاور لے گئے تو ڈاکٹروں نے ہمیں کہا کہ ہم اسے کنوئیں کے پانی کی بجائے فلٹر شدہ پانی پلائیں کیونکہ اس کے جسم میں اتنی قوت مدافعت نہیں رہی کہ وہ غیر فلٹر شدہ پانی ہضم کر سکے”۔
وہ بنوں کے ایک ہسپتال میں کیے گئے نزاکت خان کے معائنے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ وہاں کے ڈاکٹروں کو خدشہ تھا کہ اس کی بیماری کی وجہ ان کے گاؤں کا مضرِصحت پانی ہے جو ان کے علاقے میں پائی جانے والی یورینیم نامی تاب کار دھات کی کان کنی کی وجہ سے مبینہ طور پر آلودہ ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق “ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ کان کنی کے دوران یورنیم کے ذرات مقامی پانی اور ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں جس سے کینسر سمیت مختلف بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے”۔
اس علاقے میں یورینیم کی موجودگی کا پتہ 1992 میں چلا جبکہ 2009 میں اس کی کان کنی کی جانے لگی تاکہ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن اسے ایٹمی ہتھیاروں میں استعمال کر سکے۔ تب سے اس کی کانوں کا رقبہ مسلسل پھیل رہا ہے حتیٰ کہ رواں مالی سال (2022-23) کے ترقیاتی بجٹ میں بھی خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے انہیں وسعت دینے کے لیے 41 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔
یہ کانیں شنواہ گڈی خیل سے محض تین کلومیٹر دور ہیں جبکہ ڈاگ بانڈہ سے ان کا فاصلہ پانچ کلو میٹر سے بھی کم ہے۔
مقامی یونین کونسل کے چیئرمین ملک محیط خان کہتے ہیں کہ کان کنی کے عمل نے یہاں کے لوگوں کی صحت پر نمایاں منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان کے مطابق “اس سے پہلے ہمارے علاقے میں کینسر جیسے موذی مرض کے بارے میں کسی کو پتا بھی نہیں تھا لیکن اب جیسے جیسے ان کانوں کا رقبہ پھیلتا جا رہا ہے کینسر کے مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے”۔
کچھ مقامی نوجوان مل کر یہ تعداد معلوم کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ شروع میں انہوں نے خیبرپختونخوا کے مختلف ہسپتالوں سے بھی اس سلسلے میں معلومات لینے کی کوشش کی لیکن ان ہسپتالوں کی انتظامیہ نے انہیں بتایا کہ ایسے مریضوں کی تعداد کا انکشاف کرنا “قومی مفاد کے خلاف ہے”۔
اس کے بعد انہوں نے خود ہی گاؤں گاؤں جا کر ان مریضوں کا پتہ لگانا شروع کیا جس سے انہیں معلوم ہوا کہ 2018 میں “تخت نصرتی تحصیل کے 29 دیہات میں کینسر کے دو سو 38 مریض موجود تھے”۔
تاہم پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے ترجمان شاہد ریاض اس شکایت کو رد کرتے ہیں کہ یورینیم کی کان کنی کی وجہ سے تخت نصرتی میں کینسر پھیل رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہو رہا ہوتا تو “سب سے پہلے کان کنی پر متعین سرکاری اہل کار اس کا شکار ہوتے”۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا کی سرحد کے قریب واقع شنواہ گڈی خیل میں تمام گھر کچی اینٹوں اور گارے سے بنے ہوئے ہیں کیونکہ زراعت اور گلہ بانی کے علاوہ یہاں کوئی ذرائعِ آمدن نہیں۔ اس کے مشرق میں کوہِ نمک کی ایک شاخ ہے جسے مقامی طور پر سورغر (یا سرخ پہاڑی) کہا جاتا ہے۔ یورینیم کی کانیں اسی پہاڑی کے اندر واقع ہیں۔
یہاں کے پانی میں یورینیم کی آمیزش کا معاملہ پہلی بار 2013 میں سامنے آیا جب یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کوہاٹ، یونیورسٹی آف پشاور اور خیبر میڈیکل یونیورسٹی کوہاٹ سمیت پانچ تعلیمی اداروں کے سائنسی شعبوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ اور طلبا نے اس معاملے پر ایک تفصیلی تحقیق کی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے تحصیل تخت نصرتی کے 19 ٹیوب ویل، سات نلکوں اور پانی کے چار کھلے ذخیروں سے نمونے اکٹھے کیے اور ان کا لیبارٹری میں معائنہ کیا۔
اس معائنے کے نتائج مقامی آبادی کے خدشات کی تصدیق کرتے ہیں۔
ان کے مطابق شنواہ گڈی خیل یونین کونسل سے لیے گئے نمونوں میں یورینیم کی مقدار 84.23 مائیکرو گرام فی لیٹر تھی جبکہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے طے کردہ معیار کے مطابق پینے کے پانی میں اس کی 15 مائیکرو گرام فی لیٹر سے زیادہ موجودگی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ تین نواحی یونین کونسلوں، تخت نصرتی، سراج خیل اور چوکارہ، سے لیے گئے نمونوں میں بھی اس کی مقدار عالمی ادارہ صحت کے طے کردہ معیار سے کہیں زیادہ تھی۔
لیکن شاہد ریاض کا اصرار ہے کہ تخت نصرتی تحصیل کے “پانی میں ایسی کوئی چیز نہیں جو مضر صحت ہو”۔ ان کے مطابق کمیشن “مقامی لوگوں، زیر زمین پانی اور کھلے پانی کا باقاعدگی سے معائنہ کرتا رہتا ہے” تاکہ کان کنی کے منفی اثرات کا بروقت پتہ چلا کر ان کا تدارک کیا جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں انجمن ہلال احمر نامی بین الاقوامی فلاحی تنظیم کے اہل کاروں نے شنواہ گڈی خیل کے پانی کا معائنہ کر کے مقامی لوگوں کو بتایا ہے کہ “اسے پینا تو دور کی بات ہے اس سے تو وضو بھی نہیں کرنا چاہیے”۔ (اس تنظیم نے پچھلے دو ماہ سے اس علاقے میں ایک عارضی فلٹریشن پلانٹ بھی لگا رکھا ہے جو مقامی آبادی کو روزانہ تقریباً 40 ہزار لیٹر صاف پانی فراہم کر رہا ہے۔)
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر مقامی پانی انسانی استعمال کے لیے ناقص نہیں “تو پھر کان کنی پر متعین سرکاری اہل کار اپنے لیے 15 کلومیٹر دور سے ٹینکروں کے ذریعے پانی کیوں منگاتے ہیں”۔ تاہم شاہد ریاض کے مطابق اس کی وجہ مقامی پانی کا ناقابلِ استعمال ہونا نہیں بلکہ “اس علاقے میں پینے کے پانی کی کمی ہے”۔
کرک سے منتخب ہونے والے خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن ظفر اعظم بھی اس طرح کی سرکاری توجیہات کو صحیح نہیں سمجھتے اور اس مقامی موقف کی حمایت کرتے ہیں کہ شنواہ گڈی خیل میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کئی بار اس مسئلے پر قومی سلامتی کے اداروں کے سامنے احتجاج کر چکے ہیں جس کے نتیجے میں “ایک دفعہ یورینیم کی کان کنی کا عمل بند بھی کیا جا چکا ہے”۔
ان کے مطابق ان کے احتجاج کے بعد قومی سلامتی کے اداروں کے اعلیٰ سطحی اہل کار “ہر بار یہ وعدہ کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ جلد ہی حل کر دیا جائے گا”۔ لیکن جب کبھی بھی وہ صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں ان وعدوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کرنا چاہتے ہیں تو، ان کے بقول، “ایک فوجی افسر مجھے ایسا کرنے سے منع کر دیتا ہے”۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپنے دورِ صوبائی وزارت (07-2002) میں انہوں نے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن سے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت کان کنی کا عمل شروع کرنے سے پہلے شنواہ گڈی خیل میں رہنے والے لوگوں کو سرکاری خرچ پر 10 کلو میٹر دور ایک نئی آبادی میں منتقل کیا جانا تھا۔ لیکن وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ 2008 کے عام انتخابات میں انہیں ہرا کر رکن اسمبلی منتخب ہونے والے امیدوار اس نئی آبادی کے لیے کوئی غیرمتنازعہ جگہ منتخب نہ کر سکے اور یوں اس معاہدے پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
تاہم مقامی لوگ ابھی بھی سرکاری اداروں کو کہتے رہتے ہیں کہ ان کی شکایات کا ازالہ کیا جائے۔ کرک کے دو سماجی کارکنوں ڈاکٹر قیصر محمود اور طارق اللہ خٹک کی طرف سے اکتوبر 2020 میں مقامی ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں جمع کرائی گئی ایک درخواست اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ تخت نصرتی تحصیل کے پانی کا حکومتی سطح پر معائنہ کرایا جائے اور ان دیہات میں سرکاری خرچے سے صاف پانی فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے جہاں یورینیم کی مقدار عالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ محفوظ سطح سے زیادہ ہے۔
طارق اللہ خٹک کہتے ہیں کہ انہوں نے نہ صرف ڈپٹی کمشنر سے تفصیلی ملاقاتیں کی ہیں بلکہ ڈپٹی کمشنر نے بھی پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کو مقامی لوگوں کے مسائل سے آگاہ کیا ہے۔ لیکن “تاحال اس حوالے سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا”۔
بشکریہ لوک سجاگ