ٹرانس جینڈرزایکٹ کسی صورت اسلامی قوانین سے متصادم نہیں ،فرحت اللہ بابر

اسلام آباد::پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینزکے سیکرٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ٹرانس جینڈرز کے حقوق کیلئے انکے شانہ بشانہ کھڑی ہے، 2018ءکے ایکٹ کوغلط سمجھا گیا ہے،یہ ایکٹ اسلامی قوانین سے متصادم نہیں ہے،یہ کہنا کہ اس قانون کے نافذ العمل ہونے سے بے راہ روی کا راستہ کھل جائیگا درست نہیں ہے،ایسا پراپیگنڈہ نہ کیا جائے جس سے ملک میں بے چینی اور انارکی پھیلے،اس طرح کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

ان خیالات کا اظہار نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ٹرانس جینڈرز ایکٹ کے حوالے سے ببلی ملک، عائشہ مغل ،فرزانہ باری اور ایمان مزاری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

فرحت اللہ بابر کا مزید کہنا تھا کہ خواجہ سرا ءہمارے معاشرے کا وہ محروم طبقہ ہے جنہیں انکے خاندانوں نے بھی تنہا چھوڑ دیا ہے، ٹرانس جینڈرز کے حوالے سے 2018ءکے ایکٹ کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ اس ایکٹ کو چیلنج کرنے والوں کی نیت پر شک نہیں ہے کیونکہ ہو سکتا ہے انہیں اس کے بارے میں غلط بتایا گیا ہو، انکے کے شکوک کو دور کیا جانا ضروری ہے کہ یہ ایکٹ کسی صورت اسلامی قوانین سے متصادم نہیں ہے، یہ مفروضہ کسی صورت درست نہیں ہےکہ اس قوانین کی وجہ سے معاشرے میں بے راہ روی میں اضافہ ہو جائیگا۔اس ایکٹ پر تنقید کرنے والے لوگوں نے اس قانون کو پڑھا ہی نہیں ہے۔

اس موقع پر ٹرانس رائٹس ایکٹوسٹ ببلی ملک کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر ترانس جینڈرز ایکٹ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے،اس ایکٹ میں اسلام کے خلاف کوئی شق شامل نہیں ہے ، آئین میں تمام شہریوں کو صحت، تعلیم، سمیت تمام حقوق حاصل ہیں، عائشہ مغل کا کہنا تھا کہ خواجہ سراءکو شادی کا حق ہی نہیں ہے،وزارت انسانی حقوق کے خط کے مطابق خواجہ سراءکی نادرا میں رجسٹریشن میڈیکل بورڈ کے مطابق کی جاتی ہے.

سماجی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے کہا کہ خواجہ سراوں کو 75 برس بعد حق ملا جس پر حملہ ہو گیا، ہمارے معاشرے میں خواجہ سراﺅں کو انسان ہی تسلیم نہیں کیا جاتا اور نہ ہی انکے حقوق کو مانا جاتا ہے،سینیٹر مشتاق میڈیا پر مسلسل غلط بیانی کر رہے ہیں، جس طرح کے الزامات لگائے جا رہے ہیں انکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ایڈووکیٹ ایمان مزاری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جب کسی ٹرانس جینڈر کو قتل کیا جاتاہے تو کیاپہلے میڈیکل بورڈ فیصلہ کرتا ہے کہ ٹرانس جینڈر ہے یا میل ہے کہ فی میل ہے تو اگرایسا نہیں ہے تو کیوں ہمیں یہ بات یا د آتی ہے جب ا ن کے حقوق کی بات ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ 2018 کا ایکٹ اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ اس نے 1871 کا جو غلامی کے دور کا قانون تھا اس سے تھوڑی سی آزادی پائی ہے اور اس کی وجہ سے برصغیرمیں خواجہ سراﺅں کوالگ شناخت مل سکے گی لہذہ اس قانون کو واپس نہ کیا جائے ۔