قبائلی علاقوں میں صحافیوں کو درپیش خطرات

فاروق محسود

شمالی وزیرستان کی تحصیل رزمک میں 12 اگست 2023 کو اتمانزائی مشران کے جرگہ میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومتی پروگرامات میں شرکت کرنے پر بیس لاکھ روپے جرمانہ عائد ہوگا، جس میں صحافیوں پر خصوصی طور پر واضح کردیا گیا تھا کہ وزیرستان کے صحافیوں پر بھی اس فیصلے کا اطلاق ہوگا.

اس فیصلے کو پریس کلبز، اور صحافتی یونین نے مسترد کردیا لیکن چونکہ یہ ایک علاقے بڑے قومی جرگہ کے فیصلے کی خلاف ورزی تھی تو اسکے اثرات کسی نہ کسی صورت صحافیوں پر پڑے اور صحافیوں کو اپنے خاندان کی طرف سے کہا گیا کہ ہمارے لیئے مسائل پیدا نہ کریں۔ اس کے باوجود صحافیوں نے صحافت پر قدغن لگنے نہ دیا۔ جرگہ چونکہ علاقے میں امن اور دوسرے مطالبات کے لئے کیا گیا تھا اور اس میں صحافیوں کو بھی کہا گیا کہ وہ بھی حکومتی پروگرامات کا بائیکاٹ کریں.

سنئیرصحافی عمردراز وزیر کہتے ہیں کہ ہم صحافیوں نے اکثر اوقات علاقائی پریشر کو ہینڈل کیا ہے لیکن مین اسٹریم پاکستانی میڈیا پر عوامی مسائل سینسرشپ کا شکار ہوجاتے ہیں جسکے باعث صحافی بہت مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔

عمردراز وزیر قبائلی اضلاع خصوصا شمالی وجنوبی وزیرستان میں میڈیا سینسرشپ کی وجوہات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اکثر ٹی وی چینلز نے سیلف سینسرشپ کی ہوئی ہے جہاں سے زیادہ کاروبار ملتا ہے وہاں کی خبروں کو زیادہ جگہ دی جاتی ہے، اور اکثر اگر یہاں کے نمائندے خبر بھیج بھی دیں تو اسے جگہ نہیں ملتی، اسکے علاوہ کچھ خبریں طاقتور حلقوں کی وجہ سے بھی سینسرشپ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر صحافی خود بھی بعض خبروں کو میڈیا پر نہیں لاتے یا نہیں لااسکتے جسکی وجہ قبائلی روایات، عسکریت پسند، اور بعض دوسرے طاقتور حلقوں کی پابندیاں ہوتا ہے ۔

جرگہ میں صحافیوں پر پابندی کے بارے میں ڈی پی او نارتھ وزیرستان اور ڈپٹی کمشنر نے خبردار کیا کہ علاقے میں کسی بھی گروہ یا جرگہ کی جانب سے کسی قسم کی غیر قانونی پابندی کو برداشت نہیں کیا جائے اورقانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔

عالمی یوم آزادی صحافت پر آر ایس ایف کی جاری کردہ 2023 ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق پاکستان اب 180 ممالک اور خطوں میں سے 150 ویں نمبر پر ہے.

اسی طرح سابقہ فاٹا اور موجودہ قبائلی اضلاع میں گذشتہ دو دہائیوں میں 15 صحافی اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی وجہ سے جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ اور ایک اندازے کے مطابق سو سے زائد صحافیوں نے صحافت کو خیرباد کہا ہے۔

ٹرائیبل یونین آف جرنلسٹ کے سابق صدر صفدرداوڑ کے مطابق صحافیوں کو ہراساں کرنے، تشدد، اور معلومات تک رسائی نہ ملنے، سیاسی طور پر متعصب میڈیا اور میڈیا کی ملکیت کا ارتکاز قبائلی اضلاع میں سینسرشپ کا باعث بن رہے ہیں۔

صفدر داوڑ مذید کہتے ہیں کہ قبائلی اضلاع میں فاٹا انضمام سے قبل ہماری صحافتی سرگرمیوں پر قانونی طور پر قدغن تھا لیکن اب انضمام کے بعد بھی ہمیں اسی ہی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے 11 دسمبر 2018 کو مرحوم سیلاب محسود اور صحافی ظفر وزیر پر پی ٹی ایم تحریک کی کوریج کرنے پر ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ ایسے حالات کی وجہ سے صحافی عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر اہم بنیادی مسائل سینسرشپ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

خراسان ڈائری کے ڈائریکٹر نیوز احسان ٹیپو محسود، قبائلی اضلاع بالخصوص وزیرستان میں میڈیا بلیک اوٹ کی وجوہات کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسکی ایک وجہ معلومات تک رسائی نہ ہونا بھی ہے ۔ مقامی لوگوں کو معلومات تک رسائی تو مل جاتی ہے لیکن بین الاقوامی میڈیا کو رسائی نہیں ۔ اگر مل بھی جائے تو ایمبیڈیڈ جرنلزم میں پھر حقیقی صحافت نہیں کرپاتے، اس کے علاوہ انتظامیہ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے کہ اگر کوئی روپورٹ شائع کردی جائے تو انتظامیہ کی جانب سے بھی صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، اور دہشتگرد تنظموں کے بارے میں اگر کوئی خبر دی بھی جائے تو اسکی وجہ سے صحافیوں پر فتوے لگ جاتے ہیں جوکہ پھر سینسرشپ کا باعث بن جاتے ہیں۔

احسان مذید کہتے ہیں کہ دہشتگرد تنظیمیں، قبائلی روایات، انتظامیہ، سیکورٹی اداروں اور خود میڈیا اداروں کی وجہ سے میڈیا بلیک اوٹ ہے۔

سنئیر صحافی اور تجزیہ کار لحاظ علی قبائلی اضلاع میں سنسرشپ کی وجوہات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ قبائلی اضلاع میں میڈیاسینسرشپ ایک ادارے یا ایک شخص کی حد تک نہیں بلکہ پورے قبائلی اضلاع تک ہے، وہاں پر قبائلی روایات، ضلعی انتظامیہ کے دباؤ کے پیش نظر خبریں سینسرشپ کا شکار ہوتی ہیں فاٹا کے انضمام کے بعد اب بھی وہاں صحافیوں کے لیئے حالات سازگار نہیں، اور تیسرا عنصر سیکورٹی ادارے بھی ہیں۔

لحاظ علی مذید کہتے ہیں کہ ملک کے باقی علاقوں میں بھی صحافیوں کو صحافت کی وجہ سے خطرات کا سامنا ہوتا ہے اور عموما ایسے حالات میں پھر صحافیوں کے لیئے اوازیں اٹھتی ہیں لیکن قبائلی اضلاع کے صحافیوں کے لیئے اوازیں بھی نہیں اٹھتیں۔

سنیر قبائلی صحافی رسول داوڑ کے مطابق قبائلی اضلاع میں صحافی سیلف سینسرشپ بہت کرتے ہیں کیونکہ وہ چاہتے کہ وہ زندہ رہیں، اکثر انکو کسی خبر کے بارے میں کسی نے منع نہیں کیا ہوتا لیکن صحافی ماضی کے حالات کو دیکھتے ہوئے اکثر اوقات بہت ساری خبروں پر خاموش ہوجاتے ہیں۔ سینسرشپ کی مثال کسی کا منہ پر پٹی باندھ دینے کے مترادف ہے کیونکہ آزاد صحافت یا میڈیا بلیک اوٹ ضروری معلومات تک رسائی روکتے ہیں، جو خاص طور پر جاری بدامنی، سیاسی اور معاشی بحرانوں کے دوران نقصان دہ ہے عوام کو مسائل کو سمجھنے اور ان کا جواب دینے کے لیے قابل اعتماد خبروں کی ضرورت ہوتی ہے۔