ضم اضلاع کی خواتین کےمسائل کا حل مرد عوامی نمائندوں کے پاس نہیں

اسلام گل آفریدی

ضلع خیبر کے تحصیل اپر باڑ سے تعلق رکھنے والی نسیم ریاض ڈسٹرکٹ ریٹرنگ آفسر کے سامنے پیش ہوئی،کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے بعد اُن کا نام صوبائی نشست (پی کے 71) کیلئے جنرل نشست پر باقی اُمیدواروں کے فہرست میں شامل ہوگیا جو 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

اس حلقے سے 33 مرد جبکہ ایک خاتون اُمیدوار میدان میں ہے تاہم ایسے انتخابی عمل میں حصہ لینا نہ صرف خواتین بلکہ مردو ں کے لئے بھی کافی مشکل ہے لیکن اس کے باوجود بھی نسیام ریاض نے عوامی نمائندے کے طور پر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اُنہوں کہا کہ بی اے تک تعلیم پشاور میں حاصل کرنے بعد شادی اپر تحصیل باڑہ کے علاقے ستوری خیل میں ہوئی۔اُن کے بقول جب وہ یہاں رہائش پزیر ہوئی تو اُن کو معلوم ہوا کہ یہاں کے مقامی خواتین تعلیم، صحت، روزگار اور دیگر بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی مشکل زندگی گزررہی ہیں جبکہ ان مسائل کے حل کے لئے سماجی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور مقامی حکومتوں میں منتخب خواتین و مرد ممبران کے تربیت شروع کردی تاکہ یہی لوگ صحیح طریقے سے اپنے لوگوں کے خدمت کرسکے۔

شدت پسندی سے متاثر اور سخت قبائلی روایات کے باوجود بھی خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع سے پہلی بار صوبائی اور قومی اسمبلی کے نشستوں پر زیادہ تعداد میں خواتین اُمیدوار سامنے آئے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق سات ضم قبائلی اضلاع کے چھ قومی اسمبلی کے جنرل نشستوں پر 123 مرد اور دو خواتین اُمیدوارں کے کاعذات نامزدگی منظور کی جاچکے ہیں۔ شمالی وزیر ستان کے حلقہ این اے 40 سے عابدہ اور جنوبی وزیر ستان کے حلقہ این اے 42 سے سابق ممبر قومی اسمبلی عائشہ گل لیلی وزیر میدان میں ہے۔

صوبائی اسمبلی کے سولہ جنرل نشستوں پر پانچ خواتین سمیت 443 امیدواروں کے نام فہرست میں شامل کردئیے گئے ہیں۔  باجوڑ کے صوبائی نشست پی کے 21 سے سلطنت بی بی، ضلع خیبر کے پی کے68سے شاکرہ شنیواری، خیبر  پی کے 70سے لعل زیدہ، خیبر پی کے 71سے نسیم ریاض، ضلع کرم کے پی کے 95سے فرخانہ انتخابات میں اُمیدوار ہیں۔ اورکزئی کے صوبائی نشست پی کے94سے محصوص نشست پر سابق ممبر صوبائی اسمبلی بصیر ت شینواری نے کاعذات نامزدگی داخل کرچکے ہیں۔

انتخابات اور جمہوری نظام میں خواتین اور اقلیتی برادری کے شرکت بڑھنے کے لئے الیکشن کمیشن غیر سرکاری اداروں اور نادرہ کے ساتھ ملکر پوری ملک سمیت ضم اضلاع میں اقدمات کررہا ہے۔  خیبر پختونخوا کے صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر میں قائم جنیڈر اور اقلیتی برادری کے لئے قائم سیل کے انچارچ اسٹنٹ ڈائریکٹر اون احمد نقوی نے کہاکہ آنے والے انتخابات میں خواتین، خواجہ سراء اور اقلیتی برادری کے شرکت بڑھنے کے لئے پچھلے کچھ عرصے سے نادرہ کے مدد سے کام جاری ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ پانچ ضم اضلاع جن میں باجوڑ، مہمند، خیبر، کرم اور اورکزئی میں دور دارز علاقوں میں نادرہ کے موبائل وین کی سہولت مہیا کی گئی جہاں پر بڑ ی تعداد میں خواتین کی پہلی بار شناختی کارڈ بن گئی اور اُن کا نام ووٹر لسٹ میں شامل کردیئے گئے۔اُنہوں نے کہاکہ ضم اضلاع میں پہلے سے موجود نادرہ کے مراکز میں خواتین کے رہنمائی اور سہولت کے خصوصی ڈیسک قائم کردئیے گئے ہیں تاکہ شناختی کارڈ بنانے میں آسانی میسر ہو۔

ضلع باجوڑ کے صوبائی نشست پی کے 21سے پچیس اُمیدوار میدان میں ہیں جن میں ایک سلطنت بی بی ہے۔ اُن کا تعلق ایک پسماندہ علاقے اتمان خیل سے ہے۔ انتہائی مشکل میں گھر سے کئی کلومیٹر دور ضلع کے واحد گرلز کالج سے گریجویشن مکمل کرنے بعد علاقے کے دیگر لڑکیوں کی اُن کی بھی کم عمری میں شادی کرائی گئی لیکن اُن کے ذہن میں ہمیشہ یہی سوچ تھی کہ اپنے علاقے کے خواتین کو درپیش مسائل کیسے حل ہونگے۔ اس بنیاد پر اُنہوں نے پہلی بار اپنے علاقے میں مقامی حکومتوں میں خواتین کے مختص جنرل کونسلر کے نشست پر انتخابات میں حصہ لی جبکہ اب حالیہ جاری انتخابی عمل میں اپنے علاقے کے جنرل نشست پر صوبائی نشست کے لئے بحیثیت اُمیدوار حصہ لی رہے۔ اُنہوں نے کہ سیاست میں آنے کاکوئی ارادہ نہیں تھا لیکن اپنے علاقے کے پسماندگی اورخواتین کو درپیش مسائل کو دیکھ کر فیصلہ کرلیا کہ جب تک عوامی سطح پر خاتون نمائندہ موجود نہیں تب تک کو ئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتاہے۔

پاکستان اور خصوصاخیبر پختونخوا کے خواتین کا انتخابی عمل میں حصہ بہت کم ہے جن میں سخت قبائلی روایات اور سیاسی جماعتوں کے طرف سے خواتین حوصلہ شکنی ہے۔ جولائی 2019کو ضم قبائلی اضلاع میں پہلی بار صوبائی انتخابات میں ضلع خیبر سے سیاسی و سماجی کارکن ناہید آفریدی نے عوامی نیشنل جماعت کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لی تھی۔ لیکن اُن کے بقول یہ آسان کام نہیں تھا کیونکہ قبائلی علاقوں میں خواتین کی انتخابات میں شرکت اور قبولیت نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ بحثیت اُمیدوار سامنے آنا کسی کی سوچ میں بھی نہیں تھی۔اُنہوں نے کہاکہ پہلے تو سیاسی جماعتیں کسی بھی خاتون رکن کو ایسی جگہ پر ٹکٹ ہی نہیں دیتے جہاں پر جتینے کے مواقعیں زیادہ ہوں اور جب ٹکٹ جاری کرد جاتے ہیں تو بعد میں اپنے ہی جماعت کے طرف سے مرد اُمیدوار کے نسبت خاتون کی اُسطرح مدد نہیں کی جاتی ہے۔اُنہوں نے کہاکہ انتخابات میں تلخ ماضی کے تلخ تجربے کے بناء پر وہ اُنہوں نے رواں انتخابی عمل میں بحیثیت اُمیداور حصہ نہ لینے کے فیصلہ کرلیاہے۔

ناہید آفریدی نے کہاکہ ضم اضلاع کے خواتین کے بحیثیت ووٹر انتخابی عمل میں شرکت کے حوالے بہت سے مشکلات موجود ہے جن میں ایک بڑی تعدادایسے جن کے اب تک شناختی کارڈ نہیں بنے ہیں اور جن کے ووٹر لسٹ میں نام درج ہے تو اُن کو رائے دہی کے استعمال میں مسائل کا سامنا ہے۔اُن کے بقول دو سال پہلے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں خواتین کے بحثیت ووٹر زیادہ تعداد میں شامل ہونے کیلئے ضلع خیبر میں آگاہی مہم چلا گیا اور بڑی تعداد میں ایسے خواتین کے ساتھ ملاقات ہوئی جنہوں نے زندگی میں کبھی بھی ووٹ کا استعمال نہیں کیا تھا۔اُنہوں نے کہاکہ یہ بہت مشکل کام ہے کہ آپ خاتون کو ووٹ کے استعمال کے حوالے سے اُن آگاہی دیں سکے۔اُنہوں نے کہاکہ خواتین کے انتخابی عمل میں شمولیت کے بغیر ترقی ممکن نہیں اور اس حوالے سے بہت بڑے پیمانے پر الیکشن کمیشن اور غیر سرکاری امدادی اداروں کو کام کی ضرورت ہے کہ خاندان کے مردوں کی سوچ میں تبدیلی لاسکے۔

سلطنت بی بی کے شوہر مجیب رحمان نے اپنے بیوی کو رواں انتخابی عمل میں باجوڑ کے حلقہ پی کے 21سے بحیثیت اُمیدوار حصہ لینے کی اجازت دی ہے، اس پہلے اُنہوں نے علاقے مقامی حکومت کے انتخابات میں خواتین کے مخصوص نشست پر بھی بحیثیت اُمیدوار احصہ لی تھی۔اُنہوں نے کہاکہ سلطنت کو نہ صرف خاندان بلکہ علاقے کے عوام کے طرف سے پھر پور تعاون حاصل ہے۔ اُنہوں نے کہ اس حوالے سے ہمیں تنقید کی پروا نہیں کیونکہ ہم ایک تعمیری کام کررہے ہیں جوکہ علاقے کے خواتین کو درپیش مسائل کے حل میں مدد گار ثابت ہوگا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنماء سید ولی شاہ آٖفریدی نے کہاکہ اُن کے جماعت جمہوری عمل میں خواتین اور اقلیتی نمائندگی پر یقین رکھتاہے اور الیکشن کمیشن کے جانب سے مقرر کردہ ٹکٹوں پانچ فیصد کوٹہ پر پوار عمل کیاجاتاہے۔اُنہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ضم سے کسی خاتون اُمیدوار نے ٹکٹ کے پارٹی کے رہنماؤں سے رابطہ نہیں کیاتھا تو اس وجہ سے کسی کو ٹکٹ جاری نہیں کیاگیا ہے۔

اون احمد نقوی نے کہاکہ انتخابات کے قانون کے مطابق جس پولنگ سٹیشن پر خواتین ووٹر موجود اور پولنگ کے عمل میں اُن ووٹ ڈالنے کی شرح دس فیصد سے کم ہوتو وہاں پر دوبارہ انتخابات کا انعقاد کیاجائیگا۔ اُنہوں نے کہ اس مسئلے کے حل کے لئے الیکشن کمیشن نے ہرممکن اقدامات کیں جبکہ اُمیدواروں اور علاقے کے عمائدین کی بھی اس حوالے سے تعاون کی ضرورت ہے تاکہ خواتین ایک پرامن ماحول میں اپنے رائے دہی کا حق استعمال کرسکے۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہاکہ صوبے بھر سے خاتون اُمیدوار یا ووٹر ز انتخابی عمل میں کسی بھی قسم کے شکایت کے لئے صوبائی انتخابی کمیشن کے دفتر میں شکایت سیل میں ٹیلی فون پر اپنے شکایت درج کرسکتے جن کے فوری حل کے لئے اقدامات کیں جائینگے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلی کے کُل145میں 115 جنرل، 26خواتین و4اقلیتی برادری کے لئے مختص نشستوں پر 1144مرد ۱ور35خواتین اُمیدوار وں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوچکی ہے۔ صوبے بھر سے قومی اسمبلی کے 45جنرل نشستوں پر 2993مرد اور 101خواتین اُمیدواروں کے ختمی فہرست جاری کردیا گیا ہے۔

ماضی قبائلی اضلاع سے انتخابی اُمیدواروں کے حیثیت سے بہت کم خواتین نے حصہ لی ہیں۔

سلطنت بی بی نے کہا کہ ضلع باجوڑ بارہ لاکھ88ہزار آبادی  کے لئے ایک ہی گرلز ڈگری کالج ہے جوکہ پرانے ہسپتال کے عمارت میں قائم ہے لیکن عملے اور سہولیات کی کمی کے بناء پر طالبات کو کافی مسائل کا سامناہے جبکہ دوسرے جانب خاندان والے لڑکیوں کے تعلیم کی حصول کی اجازت نہیں دیتاہے۔ اُنہوں نے بتایاکہ اُن کے آبائی علاقے میں لڑکیوں کے کئی پرائمری سکولز تو ہے لیکن ہائی سکول صرف ایک ہی ہے جوکہ علاقے کے ضروریات پوار نہیں کرسکتی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ دور دراز علاقوں میں صحت کے بنیاد مراکز میں سمیت ضلع کے واحد بڑے ہسپتال میں خواتین کے علاج کے لئے بہتر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے  نہیں زیچگی کے دوران خواتین موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔اُن کے بقول خواتین کو وراثت کے حق سے محروم رکھنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

نسیم ریاض کے بقول موجودہ وقت میں بھی  باڑہ کے مختلف علاقوں میں پانی جیسے بنیاد ی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے خواتین دور دور سے سرپر بربتوں میں گھر کے ضروریات کے لئے پانی لاتے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ ضم قبائلی اضلاع کے خواتین کے پاس سلائی کڑائی اور دیگر روایاتی چیزیں بنانے کا بہتر ین ہنر موجود ہے لیکن اُن کے مارکیٹنگ کے لئے آج تک کچھ نہیں کیاگیا جس کی وجہ آبادی بڑا حصہ غربت کے شکار ہے۔ اُن کے بقول خواتین کو معاشی طورپر مستحکم کرنے کے لئے بنگلہ دیش کے حکومت کے اقدمات کی ضرورت ہے اور یہ سارے مسائل تب حل ہونگے کہ جب خواتین کی نمائندگی ایوانوں میں موجود ہے۔

الیکشن کمیشن کے جانب سے ضم اضلاع کے اکیس صوبائی نشسیتں دئیے گئے جن میں سولہ جنرل جبکہ تین خواتین اور ایک اقلیتی برادری کے لئے مختص کیاگیا ہے۔ ٹکٹوں کے تقسیم کے حوالے الیکشن کمیشن کے قانون کے مطابق ہر سیاسی جماعت کوپانچ فیصد ٹکٹ خواتین کو دینا لازمی ہے۔ عموما ایونوں میں خواتین نمائندے مخصوص نشستوں پر ہی پہنچتے ہیں۔ ناہید آفریدی کے بقول سیاسی جماعتیں عام نشستوں پر خواتین کی حوصلہ آفزائی نہیں کرتے جس کے وجہ سے پوری صوبہ خیبر پختونخوا میں بمشکل سے کوئی خاتون اُمیدوار کامیاب ہوکر اسمبلی تک پہنچ جاتی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ مخصوص نشستوں پر منتخب خواتین ممبران ضم اضلاع میں خواتین کو درپیش مسائل حل نہیں کرسکتے جن میں بنیادی وجہ منتخب صوبائی ممبرا ن اپنے علاقو ں سے باہر شہروں میں رہائش پزیر ہونا ہے۔

سلطنت بی بی کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے تاہم اب تک پارٹی کے طرف سے ٹکٹ کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ اُنہوں نے کہ مخصوص نشستوں پر ایسے خواتین کا انتخاب کیاجاتاہے جن کو ضم قبائلی اضلاع کے بارے میں کو ئی علم نہیں ہوتاہے تو کیسے وہ علاقے میں خواتین کو درپیش مسائل حل کرئینگے۔اُنہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے مقامی خواتین نمائندوں کو مخصوص نشستوں پر اسمبلی بھجنا چاہیے۔

الیکشن کمیشن سے حاصل کیں گئے دستاویزات کے مطابق سات ضم اضلاع سے 31لاکھ 58ہزار287ووٹرزرجسٹرڈ ہے جن میں 13لاکھ 85ہزار792خواتین ہے۔ مجموعی ووٹرز کے 45فیصد خواتین تاہم آبادی کے لحاظ سے خواتین کی شرح 51فیصد ہے۔ سماجی کارکن نیلم آفریدی کاکہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں بدامنی کی لہر اور شدت پسندی کے ساتھ سخت روایات وہ عوامل ہیں جوکہ صرف خواتین کا جمہوری نظام اُن کے راستہ روک لیتاہے بلکہ مزکورہ وجوہات زندگی کے تمام شعبوں پر اثرا نداز ہورہے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ قبائلی اضلاع میں کچھ حد تک سیاسی جماعتیں اپنے سرگرمیاں کررہے ہیں تاہم وہاں پر اب بھی لوگ ووٹ کا استعمال تعلق اور برادریوں کے بنیاد پر کرتے ہیں جبکہ اُمیدواروں انتخابی مہم کے دوران بھاری رقم خرچ کرتے ہیں۔

نسیم ریاض بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ پوری ملک اور خصوصا ضم قبائلی اضلاع میں اُمیدوار بھاری رقم خرچ کرکے عوامی نمائندہ منتخب ہوتے ہے لیکن اوہ خودلوگوں کے پاس ووٹ اس بنیاد پر مانگنے جائینگے کہ مقامی سطح پر اُن کے مسائل کے حل کے لئے اقدمات کرئینگے۔اُنہوں نے کہاکہ ماضی میں دیکھا گیا بمشکل سے خواتین ووٹ کے لئے گھروں نے نکلتے ہیں اور دوسری طرف پولینگ سٹیشنز میں نقائص انتظامات کے بناء پر توقع سے کئی گنا کم خواتین نے ووٹ ڈال لیتے ہیں۔

اون احمد نقوی کے بقول ماضی میں خیبر پختونخوا کے کچھ اضلاع سے خواتین کے ووٹنگ کے عمل میں خائل روکاٹوں کے حوالے سے شکایت موصول ہوئے تھے جن کے فوری حل کے لئے الیکشن کمیشن نے اقدمات کرکے دور کردئیے تھے۔ اُنہوں نے کہ مرد او ر خواتین کے پولنگ سٹیشنز کو الگ الگ بنایا گیا ہے تاہم بعض علاقوں میں سرکاری عمارتیں نہ ہونے کی وجہ سے ایک جگہ پر پولنگ سٹینشز قائم کردیئے گئے ہیں۔

سلطنت بی بی نے کہاکہ اب تک انتخابی مہم کے سلسلے میں کہی پر نہیں گئی تاہم ہر روز خواتین کی بڑی تعداد میں اُن سے ملنے کے لئے آتے ہیں اور نہ صرف اُن کو حوصلہ دیتا ہے بلکہ اس بات کی بھی یقین دلاتاہے کہ وہ اپنے علاقے میں انتخابی مہم چلائینگے۔ اُنہوں نے کہاکہ میرے ساتھ علاقے کے خواتین کی کافی مدد حاصل اور اُمید یہ ہے کہ وہ انتخابات کے دن گھر وں سے نکل اپنے مر ضی کے مطابق نمائندے کو ووٹ کاسٹ کرئینگے۔

نسیم ریاض نے کہاکہ انتخابی مہم میں مردوں سے براہ راست ووٹ نہیں مانگ سکتے بلکہ گھرگھر جاکر خواتین کو اپنا پیغام پہنچائینگے کہ وہ ایسے نمائندے کو ووٹ جوکہ اُن کے مسائل سمجھتاہوں اور اُن کے پاس حل بھی موجود ہوں۔