محمد فہیم
نئی حلقہ بندیوں میں سب سے زیادہ چوٹ سابقہ قبائلی کے عوام کی قومی اسمبلی میں نمائندگی پر پڑی ہے۔ جہاں سے قومی اسمبلی کی بارہ میں سے چھ نشستیں واپس لے لی گئی ہیں۔تاہم کرّم کے لوگوں میں زیادہ تشویش نظر آ رہی ہے۔
جون 2018ء تک وفاق کے زیرانتظام (فاٹا) سات ایجنسیوں پر مشتمل قبائلی علاقوں کی طویل عرصے سے قومی اسمبلی 12 اور سینٹ میں آٹھ خصوصی نشستیں ہوتی تھیں۔
پچیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد یہ قبائلی علاقے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر دیئے گئے۔ جہاں صوبائی اسمبلی میں ساتوں قبائلی اضلاع اور چھ سب ڈویژنز (سابقہ فرنٹیئر ریجنز ) کو 16 نشستوں کی نمائندگی دی گئی۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں بارہ نشستیں برقرار رہیں۔ تاہم سینٹ کی آٹھ نشستیں ختم کر دی گئی تھیں۔
2018ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی جنرل نشستیں 272 تھیں۔ جو اب 266 ہوگئی ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیوں سے متعلق الیکشن کمیشن کی تجاویز میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ نو لاکھ سات ہزار 913 آبادی پر بنایا گیا ہے۔
قومی اسمبلی کی مجموعی سیٹیں کم ہونے پر خیبر پختونخوا کی قومی اسمبلی کی نشستیں 51 سے 45 ہو گئی ہیں اور یہ ساری چھ نشستیں قبائلی اضلاع کو دی گئی تھیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ آبادی کے اس فارمولے کا پہلا شکار سابقہ قبائلی اضلاع بنے ہیں۔
پچھلے الیکشن میں ضلع باجوڑ سے دو ارکان قومی اسمبلی منتخب ہوتے تھے، اب یہاں ایک نشست رہ گئی ہے۔ ضلع خیبر میں دو قومی حلقے تھے وہاں بھی ایک رہ گیا ہے جبکہ ضلع کرّم میں بھی دو میں سے ایک نشست کم کر دی گئی ہے۔
گزشتہ انتخابات میں اورکزئی کی واحد نشست تھی جو ختم کر دی گئی۔ اب ضلع اورکزئی اور ہنگو کا ایک مشترکہ قومی حلقہ بنا دیا گیا۔
جنوبی وزیرستان کے دو اضلاع(اپر اور لوئر) سے دو ارکان قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ لیکن اب دونوں کو ملا کر ایک ہی حلقہ بنادیا گیا ہے۔ یوں یہاں بھی ایک نشست کم ہو گئی ہے۔
اسی طرح 2018ء میں چھٹا قومی حلقہ چھ سابق فرنٹیئر ریجن(ایف آر) کو ملا کر بنایا گیا تھا۔یہ شاید ملک میں قومی اسمبلی کا طویل ترین حلقہ تھا جس میں حسن خیل (ایف آر پشاور)، درہ آدم خیل (ایف آر کوہاٹ)، وزیر (ایف آر بنوں)، بیٹنی (ایف آر لکی مروت)، درازندہ (ایف آر ڈی آئی خان)اور جنڈولہ (ایف آر ٹانک) شامل تھے۔
اب فرنٹیئر ریجنز پر مشتمل نشست بھی ختم ہو گئی ہے اور ہر فرنٹیئر ریجن کو متصل ضلع کے قومی اور صوبائی حلقے میں شامل کر دیا گیا ہے۔
تاہم شمالی وزیرستان اور مہمند کی قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست برقرار رکھی گئی ہے۔
قومی اسمبلی میں ان جنگ زدہ اضلاع کی نمائندگی کم ہونے سے ترقیاتی فنڈز کے معاملات اپنی جگہ، یہاں قبائلی اور علاقائی مسائل بڑھنے کے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔ ضلع کرّم میں عرصہ دراز سے فرقہ وارانہ مسائل کا شکار ہے۔ جس کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔
ضلع کرّم سات لاکھ 85 ہزار 434 آبادی پر مشتمل ہے۔ یہاں قومی اسمبلی کا ایک(این اے 37) اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقے بنائے گئے ہیں۔
پی کے 95 کرّم ون تحصیل سنٹرل اور تحصیل لوئر کرّم (قانونگوئی علیزئی کے پٹوار سرکل حسن علی، ابراہیم زئی اور رامکی نکال کر) پر مشتمل ہے۔ اس حلقے کی آبادی چار لاکھ 79 ہزار 700 بنتی ہے۔
پی کے 96 کرّم ٹو میں تحصیل اپر کرّم کے علاوہ تحصیل لوئر کرّم کی قانونگوئی علیزئی کے پٹوار سرکل حسن علی، ابراہیم زئی اور رامکی(پارت) شامل ہیں۔ یہاں کی آبادی تین لاکھ پانچ ہزار 734 بتائی گئی ہے۔
ضلع کرّم سے حلقہ بندی پر اعتراضات سے متعلق الیکشن کمیشن میں ابھی تک چار درخواستیں جمع کرائی گئی ہیں۔ دراصل ان میں سے اعتراض کی در خواست ایک ہی ہے باقی تین درخواستوں میں ضلع کی مجوزہ صوبائی حلقہ بندی برقرار رکھنے کی استدعا کی گئی ہے۔
البتہ اپر کرّم، محمد ادریس کی درخواست میں سماجی مسائل کی بنیاد پر دو قومی حلقے (اپر اور لوئر)برقرار رکھنے کی اپیل کی گئی ہے اور اس کے لیے علاقوں کی تقسیم اور مارجن میں لچک کی تجاویز دی گئی ہیں۔
اپرکرّم (سابقہ این اے 46) سے پچھلے چار اانتخابات میں ڈاکٹر ساجد حسین طوری رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ پہلے آزاد اور پیپلز یارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوتے تھے۔
لوئر اور سنٹرل کرّم سے 2002ء اور 2008ء کے انتخابات میں منیر اورکزئی کامیاب ہوئے تھے۔ 2013ء میں مخدوش صورتحال کے باعث اس حلقے پر انتخاب ہی ممکن نہیں ہوسکا تھا۔ 2018ء میں اس حلقے( سابقہ این اے 94) سے ایک بار پھر منیر اورکزئی رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
تاہم منیر اورکزئی کے انتقال کے بعد 2021ء میں ضمنی انتخاب ہوا اور پی ٹی آئی کے فخر زمان بنگش جیت گئے۔
فخر زمان بنگش نے بتایا کہ کرّم میں ایک قومی حلقہ بنانے کا معاملہ بہت سنگین ہے۔ یہاں اب شعیہ بمقابلہ سنی انتخاب ہونے کا خوف ہے۔ دو حلقے بنانے کے لیے صرف آبادی کو ہی مدنظر رکھنا درست نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک تو تمام آبادی تک پہنچنا امیدوار کےلیے آسان نہیں ہو گا۔ دوسرے کرّم میں امن و امان کی موجودہ صورتحال میں انتخابات ہونا ہی بڑی کامیابی ہو گی۔ لوئر اور سنٹرل کرّم کے لوگ ماضی میں بھی پانچ سال تک نمائندگی سے محروم رہ چکے ہیں۔
سینئر صحافی علی افضل افضال بتاتے ہیں کہ ضلع کرّم میں مسئلہ گھمبیر ہو گا۔ قومی اسمبلی کی یہاں دو نشستیں تھیں تو اہل سنت اور اہل تشیع کو نمائندگی مل جاتی تھی۔ دونوں کے الگ الگ حلقے سے نمائندے منتخب ہوتے تھے اور اپنے علاقوں میں کام ہوتے تھے۔
“اب ایک حلقہ ہونے سے ایک ہی نمائندہ منتخب ہوسکتا ہے۔ ماضی میں کسی منتخب نمائندے نے بھی خواہ وہ اہل تشیع تھا یا اہل سنت، کبھی دوسرے فرقے کے لوگوں کے کام کرنے کو ترجیح نہیں دی۔ دونوں کے الگ الگ نمائندے ہونے سے کبھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں آیا۔”
صحافی نبی جان اورکزئی بتاتے ہیں کہ فرقہ وارانہ تقسیم کی وجہ سے ضلعے کے انتظامی طور پر دو اضلاع کی طرح چلایا جا رہا ہے۔ تعلیم اور صحت کے ڈسٹرکٹ افسر کے ساتھ لوئر و سنٹرل کرّم کے لیےالگ ایڈیشنل افسر لگائے گئے ہیں تاکہ لوگوں کو دوسرے علاقے میں جانے کی ضرورت نہ ہو۔
وہ کہتے ہیں کہ اپر کرّم میں اہل تشیع جبکہ سنٹرل اور لوئر میں اہل سنت کی اکثریتی آبادی ہے۔ لوئر اور سنٹرل کی آبادی زیادہ ہے۔ لیکن یہاں ووٹنگ کی شرح کم ہوتی ہے۔ اپر کرّم میں تعلیم کی شرح اور ووٹنگ کا تناسب بھی زیادہ ہوتا ہے۔
نبی جان سمجھتے ہیں کہ فرقہ وارانہ مسائل کی وجہ سے کوئی امیدوار پورے ضلع میں مہم نہیں چلا سکتا۔
” لوئر و سنٹرل کرّم کا امیدوار اپر کرّم میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جبکہ اپر کرّم کا امیدوار لوئر کرّم کے کئی علاقوں میں جانے سے بھی کترائے گا۔ ایسے میں کوئی جیت کر بھی دوسرے علاقے کی نمائندگی نہیں کر سکے گا۔”
خیبر پختونخوااسمبلی میں فرنٹیئر ریجنز پر مشتمل صوبائی اسمبلی کا حلقہ ختم ہوگیا ہے۔ تاہم باجوڑ میں ایک صوبائی حلقے کا اضافہ ہو گیا ہے۔ لہٰذا صوبائی اسمبلی کے 16 حلقے برقرار ہیں۔
صحافی ارشد مومند کہتے ہیں کہ سینٹ کی آٹھ نشستیں ختم ہونے کا قبائلی اضلاع کو نقصان ہوا ہے۔
“صوبائی اسمبلی میں بیٹھے منتخب نمائندے چار سال اختیار کا رونا روتے رہے۔ فنڈز قومی اسمبلی اور سینٹ ارکان کے پاس ہوتے ہیں۔ قبائل سے پہلے سینٹ اور اب قومی اسمبلی کی 6 نشستیں واپس لے لی گئی ہیں۔”
نوٹ :یہ تحریر لوک سجاک پر شائع ہوچکی ہے۔