کچھ عرصہ پہلے بھارت کی ریاست کرناٹک میں باحجاب مسلمان لڑکی نے ہندو لڑکوں کے جھتے کو اللہ اکبر کے نعرے لگا بھگایا تو ہر خاص و عام نے شادیاننے بجائےاور ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ کیے جا رہے ہیں ہندو انتہا پسند ہیں، بھارت کا مکرو چہرہ وغیرہ وغیرہ ۔
تو بھائیو یہ ایک ہی خطہ ہے اور پہلے اکھٹے بھی رہتے تھے، تو یقیناً مزاج بھی ایک جیسے ہوں گے،ایسے کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی خطے کے لوگ الگ الگ مزاج رکھتے ہوں، پڑھتے ہوئے دو منٹ اسلام کو بیچ میں نہ لانا۔
سوال یہ ہے کہ ادھر کوئی لڑکی کو تنگ کرے تو انتہا پسندی اور اگر اِدھر سری لنکن منیجر کو پیار سے مار دیا گیا، بلکہ آخری رسومات بھی ادا کر کے ہم نے سری لنکامیت بھیجی،کیا یہ امن پسندی ہے؟
چلو ہمارا ملک ہے اسلام کا بول بالا ہے، ملک کے امیج کی بات ہے تو اس واقعہ کو مزید سافٹ ٹچ دینے کے لیے ایک لائن ہے میرے ذہن میں آیا”غیر ملکی شہری امن پسندی کے دعویداروں کے ہاتھوں مارا گیا”.وہ جس شخص جلایا گیا بلا وجہ وہ بھی کسی مذہب کا پیروکار تھا، کسی کا بیٹا تھا! کیا ہم نے صیح کیا تھا؟
فیصلہ آپ خود کریں۔
اسلام کا بھوت سوار کیے نام نہاد مسلمانوں کو یہ پتا ہے کہ اسلام کفار کے سامنے کلمہ حق رکھنے کی جرأت رکھتا ہے لیکن، لیکن کسی کے جھوٹے خدا کو جھوٹا مت کہو تاکہ تمہارے سچے خدا کو کوئی جھوٹا نہ کہے، یہ بھی کہیں لکھا ہے.
پیارے پیارے میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو اپنے بارے میں کبھی سوچا کہ ہم سب کلمہ گو ہیں زبان سے مسلمان ہو کر بھی ایک دوسرے کو کافر کافر کہتے پھرتے ہیں ، اس بارے میں کیا پاکیزہ رائے ہے آپ کی.
میرے پاس ہلکا سا جواب بھی ہے اجازت ہو تو گوش گزار کر دوں آپ کے، ہم بلیک میلر ہیں ،مولوی اللہ سے ڈرا کے اپنی دکان چمکا رہا ہے، ذاکر اہل بیت کا نام لیکر ڈراتا ہے، ریاست نیشنل انٹرسٹ کے نام پر دبانا چاہتی ہے، بس ایک بات ہے کہ کبھی کوئی حقیقت پر مبنی بات نہیں کرتا.
بہادر لڑکی کے نام
جنگ میں لڑتا ہوا گلاب دیکھا
لہولہان آنکھوں میں بھی خواب دیکھا
کہیں گے لوگ یہ فخر سے صدیوں تک
کہ ہم نے نقاب میں بھی انقلاب دیکھا
دوسرا بہت سے لوگ اس لڑکی کے حجاب کو لیکر شوخے ہو رہے ہیں، تو حضور ایک عرض ہے!
” اپنے آس پاس، یونیورسٹیز کالجز میں لباس کی عریانی دیکھ کر ٹھرکی بھی شرما جائیں تو زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں وہ لڑکی ادھر ہوتی تو شاید میرا جسم میری مرضی والوں کے ساتھ برقع اتارنے کی بات کر رہی ہوتی.ایک بات اس لڑکی سے سیکھنے والی ہے کہ حق کی بات کرنے کی ہمت پیدا کرو.
قصہ مختصر ادھر سب وہ حاجی بستے ہیں جو دوران ڈیوٹی یا دوران سروس کھلم کھلا رشوت کا بازار گرم رکھتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد سفید ٹوپی اور مسجد کی پہلی صف میں پائے جاتے ہیں.