مرحوم سیلاب محسود صحافت اورمزاحمت کا روشن ستارہ

فاروق محسود

آج بابائے صحافت قبائلی اضلاع رفعت اللہ عرف سیلاب محسود کی تیسری برسی ہے، ایک معروف صحافی جو پاکستان اور یہاں تک کہ افغانستان میں بھی اپنی غیر معمولی رپورٹنگ کی مہارت کے باعث انتہائی قابل احترام تھے، اکثر جان لیوا حالات میں، دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کوریج کرتے تھے۔

بطور صحافی اپنے شاندار کام کے علاوہ انہوں نے سابق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں آزادی صحافت کے لیے بے پناہ جدوجہد کی۔

مرحوم سیلاب محسود نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ٹرائبل یونین آف جرنلسٹس بنائی اور یہاں تک کہ بدنام زمانہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے تحت جنوبی وزیرستان کی اس وقت کی پولیٹیکل انتظامیہ کی طرف سے 1987 میں ڈیرہ اسماعیل خان کے سنٹرل جیل میں انہیں 14 سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔

سیلاب محسود سخت زبان لیکن نرم دل رکھنے والے انسان تھے کیونکہ وہ فطرتاً شاعر تھے۔ ان کی شاعری بھی اپنی مقامی زبان (محسود لہجہ) میں تھی۔ اب تک ان کی شاعری کے تین کتب شائع ہوچکے ہیں جبکہ چوتھی کتاب بھی تیار ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے انگریزی کے ایک کتاب کا بھی ترجمہ کیا ہے۔

قبائلی علاقوں میں “بابائے صحافت” کے نام سے جانے جاتے تھے، مرحوم سیلاب محسود نے درجنوں موجودہ ممتاز پشتون صحافیوں کی رہنمائی کی اور صحافتی اقدار فالو کرنے پر زور دیا۔

حکومت ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں سول ایوارڈ کے لیے نامزد کرے تو یہ انتہائی قابل ستائش ہوگا کیونکہ مرحوم سیلاب محسود کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے سے آزادی صحافت اور معاشرے میں صحافت کے اہم کردار کی حمایت کا ایک مضبوط پیغام جائے گا۔

مزید برآں، ان کی زندگی اور کام ان صحافیوں کی بہادری اور لچک کا منہ بولتا ثبوت ہیں جو مشکل اور خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم ان صحافیوں کی حمایت اور تحفظ جاری رکھیں جو عوام کو درست اور بروقت معلومات، خاص طور پر تنازعات والے علاقوں اور پریس کی محدود آزادی والے علاقوں میں بروقت فراہم کرتے ہیں۔

اللہ پاک سیلاب محسود کو جنت الفردوس نصیب کرے۔امین