پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہےجو کل سنایا جائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر اور سجیل سواتی عدالت میں پیش ہوئے جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، سیکٹری دفاع، سیکریٹری الیکشن کمیشن اور ڈپٹی سیکریٹری داخلہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، پاکستان مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے اپنے کلائینٹ سے پوچھا ہے کہ انھیں اس بینچ پر اعتماد ہے کیونکہ میڈیا پر یہ خبریں آئی ہیں کہ انھیں اس تین رکنی بینچ پر اعتماد نہیں ہے۔
ان تین جماعتوں کی طرف سے تحریری یقین دہانی نہ کروانے پر ان جماعتوں کے وکلا کو دلائل دینے کی اجازت نہیں دی گئی۔
جس پر مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ بات نہ سن کر میری عدالت میں تذلیل ہو رہی ہے۔ مزید اپنی تزلیل نہیں کراؤں گا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے دلائل تحریری طور پر دے دیں۔
اس پر اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عدالت کی معاونت کیلئے پیش ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کوئی پارٹی مجھے غیر قانونی کام کرنے کا کہے تو کیا میرا اپنا دماغ نہیں کہ فیصلہ کر سکوں، عدالت کا بےحد احترام کرتے ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے حکومتی اتحاد کے وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’شیخ صاحب آپ کے ساتھ کامران مرتضیٰ اور فاروق نائیک کا احترام کرتے ہیں، حکومت میں شامل جماعتوں نے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کیا ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ذاتی حیثیت میں نہیں آئے سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اس موقع پر جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آپ کا وکالت نامہ ذاتی حیثیت میں نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ن لیگ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اعلامیہ عدالتی عملے نے نکال کر دیا ہے۔
اس پر اکرم شیخ نے کہا کہ میں دلائل نہیں دے سکتا تو کیا آرٹیکل لکھوں؟ ن لیگ سے کوئی فیس نہیں لی،عدالت نے کبھی مجھے مایوس واپس نہیں بھیجا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تحریری معروضات دے دیں جائزہ لے لیں گے جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ خود کو مزید شرمندہ نہیں کر سکتا۔ اس موقع پر کامران مرتضی نے کہا کہ ’میں گورنر کا بھی وکیل تھا سیاسی جماعت کا بھی وکیل ہوں۔ مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے گورنر کی وکالت چھوڑ رہا ہوں۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے عدالت میں جوابالجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر کوئی کام نہیں کر سکتا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین اور قانون واضح ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا۔ عرفان قادر نے کہا صدر حکومت کی سفارش کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔ کیا صدر الیکشن کی تاریخ ایڈوائس کے بغیر دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت آئین اور قانون کے مطابق انصاف کے لیے بیٹھی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی مقدمات میں سیاسی ایجنڈا سامنے آتا ہے، اٹارنی جنرل نے اس نقطے پر گفتگو نہیں کی، اٹارنی جنرل سے گلہ ہے کہ وہ 3/4 پر ہی زور دیتے رہے۔
اس پر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنے طور پر انتخابات کی تاریخ تبدیل نہیں کر سکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم یہاں پر لوگوں کے لیے مشکلات نہیں پیدا کرنا چاہتے اور عدالت بھی اس معاملے میں محتاط ہے۔
چیف جسٹس نے سیاسی جماعتوں سے کہا کہ وہ عوام کی بھلائی کے کیے کام کریں. انھوں نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ اپنے من پسند ججز کو شامل کیا جائے۔
عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل سنایا جائے گا۔