گوادر کی ٹیکس فری زون حیثیت: اثرات اور چیلنجز

ڈاکٹر عروسہ فاطمہ

گوادر کے حوالے سےاقتصادی رابطہ کمیٹی آف پاکستان کی جانب سے 2016 میں منظور کیا گیا بڑا فیصلہ جون 2023 میں باقاعدہ طور پر نافذ ہو گیا ہے، جس کے مطابق گوادر کو اگلے 23 سال کے لیے ٹیکس فری زون قرار دیا گیا ہے۔ گوادر کو سروسز، ایکسائز ٹیکس، اور پراپرٹی ٹرانسفر ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس علاقے کے اندر کاروبار، افراد، ایکسائز سامان ، اور جائیداد کے لین دین و منتقلی ، عائد شدہ ٹیکس کے تابع نہیں ہیں۔ سروسز ٹیکس، جسے ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی کہا جاتا ہے،ایک بالواسطہ ٹیکس ہے جو حکومت کی طرف سے سامان کی قیمت خرید پر لاگو ہوتا ہے۔ جبکہ ایکسائز ٹیکس ایک ایسا ٹیکس جو ہے مخصوص سروسز جیسے تمباکو، پٹرول، شراب اورلگژری مصنوعات پر لگایا جاتا ہے۔ پراپرٹی ٹرانسفر ٹیکس، جسے سٹیمپ ڈیوٹی یا رئیل اسٹیٹ ٹرانسفر ٹیکس بھی کہا جاتا ہے،ایسا ٹیکس ہے جو ایک مالک سے دوسرے کو جائیداد کی منتقلی پر لگایا جاتا ہے۔ اتنی طویل ٹیکس فری مدت بلاشبہ ملکی اور غیر ملکی کاروباری افراد کے لیے یقینن بہت پرکشش پیشکش ہے۔

بہرحال گوادر کو ٹیکس فری زون قرار دینے کے مثبت اور منفی دونوں اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ اعلان گوادر کے لئے انتہائی اہم ہے، کیونکہ یہ ملکی اور غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کو راغب کرے گا، جس سے تکنیکی ترقی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے جو خطہ کی طویل مدتی اقتصادی ترقی میں خاطر خواہ اضافہ کا باعث بنیں گے۔ یہ صوبے کے زراعت اور پیداواری شعبے پر انحصار کو بھی کم کرنے کے لیے مختلف مواقع فراہم کرے گا۔ تاہم یہ بعض پہلوؤں میں نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت کو محصولات میں نقصان ہوگا جو اسے ٹیکس وصولی سے حاصل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف یکطرفہ اور مخصوص علاقے میں ترقی کا رجحان، بلوچستان کے پہلے سے ہی پسماندہ وغیر مراعات یافتہ علاقوں اور بلوچوں میں احساس محرومی مزید بڑھا سکتا ہے، کیونکہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں غیر مساوی اور ناکافی سماجی و اقتصادی ترقی اس اقدام سے مزید واضح ہو جائیں گے۔ مزید برآں، ہنر مند طبقہ کی توجہ کا مرکز بلوچستان کا صرف ایک حصہ بن جائے گا کیونکہ اس میں پورے صوبے سے زیادہ روزگاراور کاروبار کے مواقع موجود ہوں گے۔ قواعد و ضوابط کی کمی کی وجہ سے منی لانڈرنگ، ماحولیاتی انحطاط اور مزدوروں کےاستحصال کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

چنانچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ خطے کو ٹیکس فری زون قرار دینا کامیاب ثابت ہو۔ جہاں اس فیصلے کا پاکستان میں بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیا گیا ہے، وہیں یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ نئے اعلان کردہ ٹیکس فری زون اور صوبے کی ترقی کے وعدوں کی تکمیل کو درج ذیل چیلنجز درپیش ہیں۔ گوادر کو ٹیکس فری زون قرار دینے کے فوائد حاصل کرنے کاانحصار صوبائی اور ملکی سلامتی، حکومتی پالیسیوں، مستحکم حکومت، ٹیکس مراعات کا ڈیزائن، ریگولیٹری فریم ورک ، مناسب انفراسٹرکچر و کنیکٹیویٹی،اور علاقائی لوگوں کی شمولیت پر ہے۔ ان عوامل کو یقینی بنانے کے لیے موثر منصوبہ بندی اور نگرانی ضروری ہے تاکہ مثبت نتائج ممکنہ منفی نتائج سے کئ زیادہ ہوں اور ٹیکس فری زون میں پائیدار اور جامع ترقی یقینی بنائی جاسکے۔