جنوبی وزیرستان،بلدیاتی اداروں میں خواتین کی 24 نشستیں تاحال خالی

ثانیہ محسود

ڈیرہ اسماعیل خان: بلدیاتی انتخابات کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود جنوبی وزیرستان میں خواتین کی 24 نشتیں تاحال خالی ہیں ۔

دیگر اضلاع کی طرح جنوبی وزیرستان میں بھی بلدیاتی انتخابات میں تحصیل اور ویلج کونسلز کی سطح پر خواتین کی 106 نشتیں رکھی گئیں تاہم خواتین کی عدم دلچسپی اور سیاست میں ان کے محدود کردار کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات میں امیدواروں کی کمی کا مسئلہ پیدا ہوا۔

الیکشن میں 48 نشستوں پر خواتین امیدواران بلامقابلہہ منتخب ہوگئیں ،34 نشستوں پر مقابلہ ہوا جبکہ کسی خاتون امیدوار کی جانب سے کاغذات جمع نہ کرنے کی وجہ سے 24نشستیں خالی راہ گئی ہیں ،اب ان کونسلز میں خواتین کی نمائندگی موجود نہیں ۔

جنوبی وزیرستان میں سیاست یا عوامی نمائندگی میں خواتین کی عدم شرکت کی وجوہات کے حوالے سے وانہ کے علاقے ڈاب کوٹ سے تعلق رکھنے والی خاتون کونسلر شبانہ کا کہنا ہے کہ ہماراپشتون اور مذہبی معاشرہ ہے جہاں سارے فیصلے کرنے کا حق مردوں کو حاصل ہے ،دوسری طرف خواتین میں تعلیم اور ہنر کی کمی ہے، انہیں اپنے حقوق کا بھی پتہ نہیں اس لئے سیاست میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے،

شبانہ کا کہنا ہے کہ خواتین کی مشکلات اور مسائل حل کرنے اور آگے بڑھنے کےلئےسیاست میں خواتین کی شمولیت بہت ضروری ہے لیکن میں تعلیم اور سیاست سمیت ہر شعبے میں خواتین کی شمولیت پشتون روایات اور پردے کی شرط پر قائل ہوں اور اسی شرط پر لڑکیوں کے ساتھ تعاون کرونگی۔

انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں کی اجازت اورتعاون کی ضرورت ہوتی ہے ،مجھے اپنے والد کی جانب سے تعاون اور اجازت حاصل تھی، ان کے اس فیصلے کو بھائی ،دیگر مشران اور لوگوں نے بھی تسلیم کیا کیونکہ میرے والد ملک یعنی بڑے ہیں.

انتخابی مہم کی مشکلات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مذہبی اور مرد معاشرے میں خاتون کا ووٹ مانگنا مشکل ہے،یہاں تک کہ خاتون امیدوار کو بینرز اورپوسٹرز پر اپنی شناخت ظاہر کرنے کےلئے باپ یا شوہر کا نام لکھنا پڑتاہے.

کڑی کوٹ وانا سےمنتخب کونسلر عائشہ کاکہنا ہے کہ انہوں نے علاقے کی غریب خواتین کےلئے قربانی دی اور گھر گھر جاکر انتخابی مہم چلائی جس میں ان کے شوہر نے ان کا مکمل ساتھ دیا .

ان کا کہناتھا کہ میرا خیال تھا کہ منتخب ہو کر ان خواتین کے لئے بڑے بڑے کام کرونگی ،بیوہ ،یتیم اورغریب خواتین کے بہت گھمبیر مسائل ہیں لیکن حکومت نے پوچھا تک نہیں ،کسی بھی حوالے سے کوئی مشاورت نہیں کی اور نہ ہی حقوق دیئے .

منتخب خواتین کی سرگرمیاں نہ ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ گھروں میں بند ہیں، ان میں بہت کم کو سیاسی شعور حاصل ہے،تعلیم کی بھی کمی ہے، ان کے لئے حکومت کی جانب سے بھی کوئی کام یا روزگار نہیں ہے، اس لئے خواتین کے انتخاب کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا.

واضح رہے کہ پچھلے سال 31 مارچ کو خیبر پختون خوا کے 18اضلاع کی65تحصیلوں میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے تھے،ان اضلاع میں اورکزئی، کرم، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام، تورغر، کوہستان بالا، کوہستان زیریں، کولائی پالس، سوات، شانگلہ، مالاکنڈ، دیر بالا، دیر زیریں، چترال بالا اور چترال زیریں شامل تھے۔