بلوچستان میں پانی کے بحران کی سنگینی

ڈاکٹرعروسہ فاطمہ

صوبہ بلوچستان کے مسائل کی فہرست سیاسی اور معاشی محرومیوں تک محدود نہیں، اس میں پانی جیسی بنیادی انسانی ضرورت سے محرومی بھی شامل ہے۔ بلوچستان میں پانی کا بحران نہ تو کوئی نئی بات ہےاور نہ ہی کوئی آخری مسئلہ، لیکن یہ گذرتے وقت اور گرمی میں اضافے کے ساتھ مزید شدّت اختیار کرنے کو تیار ہے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) کے تحت پانی کے بحران پر منعقد کی گئی تحقیق کے مطابق بلوچستان میں پانی کی حفاظت اور دستیابی کی صورتحال مقرر کردہ معیار میں سب سے نچلی سطح پر ہے۔

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور پانی کی سیکورٹی کے لحاظ سے سب سے بدترین صوبہ جانا جاتا ہے ،باوجود اس کے کہ صوبے کی نوے فیصد زراعت اور لائیوسٹاک کا انحصارآبی وسائل پر ہے۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (PCRWR) کے مطابق زیر زمین پانی کی سطح ہر نئے دن گرتی جا رہی ہے۔ گزشتہ ہر دہائی میں زیر زمین پانی کی سطح میں تین سو سے ہزار فٹ تک کمی واضح طور پر دیکھی گئی ہے، جس کی وجہ سے صوبے کے تمام اضلاع میں پانی کی کمی بڑھی ہے۔ ٹائم سیریز اسٹڈیز کا جائزہ لینے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پانی کی کمی کی وجہ سے جنگلات کو قدرتی تباہی کا سامنا ہے جس نے صوبہ بھر کے جنگلات کو میدانوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ مزید برآں، پانی کی کمی کی وجہ سے صوبہ میں ہرایک دو سال بعد قحط سالی رونما ہوتی ہے۔

بلوچستان میں پانی کے بحران کو پانچ اقسام یعنی پانی کی رسائی اور دستیابی، پانی کے کم ہوتے ذرائع، پانی کا ناقص انتظام، ناکافی انفراسٹرکچر اور موسمیاتی تبدیلی میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

بلوچستان میں پانی کا بنیادی ماخذ اٹھارہ دریا ہیں جن میں دریائے حب ، کیچ ، کاہان ، کادنائی ، کنڈ ، کندر، مولا ، پشین ، ناڑی ، پورالی ، رخشان ، دشت ، گاج ، گوادر، ہمون لورہ ، ہنگول ، ہامون , مشکیل اور ژوب شامل ہیں۔ان دریاؤں میں سالانہ ایک ہزار ستر ملین کیوبک میٹر پانی فراہم کرنے کی صلاحیت موجود تھی، جس میں سے چھے سو چار ملین کیوبک میٹر پہلے ہی استعمال ہو چکے ہیں۔ پانی کے دیگر ذرائع میں چار فیصد زیر زمین پانی، سندھ طاس سےانتالیس فیصد حاصل کردہ پانی، ستاون فیصد سیلابی پانی، سالانہ پچاس سے تین سو پچاس ملی میٹر بارش کا پانی اور چونسٹھ ڈیم شامل ہیں۔ ہر سال پانی کی دستیابی تقریباً پانچ سو ساٹھ کیوبک میٹر ہے جو کہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں پچیس سو کیوبک میٹر کی اوسط سے بہت کم ہے۔ سیلاب کا ستاون فیصد سیلابی پانی ڈیموں کے مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بیس فیصد ضائع ہو جاتا ہے۔یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ ان آبی ذرائع کی دستیابی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مختلف ہے۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور بدلتا ہوا موسم ، بے ربط وبے قاعدہ بارشوں کا باعث بن رہے ہیں، جس سے پانی کی دستیابی، زراعت اور اس پر منحصر معاش پر شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کچھ علاقے سیلاب کا شکار ہیں جبکہ کچھ علاقے خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں۔

صاف پانی کی دستیابی اور پانی کی بدانتظامی بھی آبی مسائل میں شامل ہیں۔ ایک خبر کے مطابق بلوچستان کے صرف پچیس فیصد عوام کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ صاف پانی تک رسائی نہ ہونے سے صحت عامہ پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ حکومت بلوچستان نے صوبے کے مختلف اضلاع میں سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں غیر فعال واٹر فلٹریشن پلانٹس کی فہرست جاری کی ہے جن کی تعداد چار سو پچھتر ہے۔عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے جنرل مشرف کے دور میں بلوچستان میں واٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے گئے تھے، جس کے تحت اس مقصد کے لیے ایک ہزار سے زائد افراد کو بھرتی کیا گیا۔ ملازمین کو تب سے تنخواہیں مل رہی ہیں لیکن پلانٹس ابھی تک غیر فعال ہیں۔ حال ہی میں وفاقی حکومت کی جانب سے پانی کے چند منصوبے شروع کیے گئے ہیں جن میں تین لاکھ سینتالیس ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر انتیس بڑے ڈیم اور پانی کے چھوٹے چھوٹے منصوبوں کی تعمیر شامل ہیں لیکن یہ ملک کے صرف چوالیس فیصد حصہ کا احاطہ کرتے ہیں۔ تاہم بلوچستان کے لیے پانی کامسئلہ بدستور برقرار رہے گا۔

اگر پانی کی صورتحال اسی طرح برقرار رہی تو 2025 تک صوبے کے آدھے سے زیادہ حصے بنجر ہو سکتے ہیں۔ خطہ پہلے سے ہی قحط کی زد میں ہے کیونکہ بڑے شہر اور زرعی علاقے پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ مزید براں بلوچستان میں غیر مساوی اور غیر متوقع بارشیں ہوتی رہتی ہیں، اس لیے بیک وقت سیلاب اور خشک سالی مقامی لوگوں کے لئے سب سے بڑا خوف بن گئے ہیں۔ اس صورت حال میں مقامی لوگوں کے لیے پیداواری علاقوں سے بڑے شہروں میں نقل مکانی، یہاں تک کہ ملک سے باہر ہجرت ہی ممکنہ راستہ ہیں۔

بلوچستان کی آبادی کے لیے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے آبی وسائل تک مساوی رسائی کو ترجیح دینا، آبپاشی کے موثر نظام کو نافذ کرنا، بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی کو فروغ دینا، اور پانی کی صفائی کی سہولیات میں سرمایہ کاری کرنا بہت ضروری ہے۔ لہذا پانی کے بحران پر قابو پانے کے لیے مؤثر قومی حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔ بلوچستان میں پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پرایک جامع نقطہ نظراپنایا جانا چاہیے، جس میں پانی کے ذخائر میں اضافہ اور پانی کے ذرائع کے تحفظ کے لیے اقدامات، اور آگاہی مہم شامل ہوں۔