وزیرستان کے حوالے سے میڈیا کا کردار

(شہریار محسود)

عیدالاضحی کے دوسرے روزجنوبی وزیرستان اپر کی تحصیل لدھا کے علاقے میدان کی ایک مسجد میں رات گزارنے والے سیاحوں سے نامعلوم چوروں نے نقدی اور موبائل فون چھین لیے تھے۔ پورے علاقے میں انٹرنیٹ سروس کی غیر اعلانیہ بندش کی وجہ سے ہمیں اگلے دن اس واقعے کا اُس وقت پتہ چلا جب ہم اسی گاؤں میں ایک دوست کے ہاں چائے پینے رکے تھے۔ مقامی لوگ بجھے بجھے اور شرمسار سے تھے۔ قبائلی معاشرے میں مہمانوں کا تحفظ یہاں کے لوگ اپنا اخلاقی فرض سمجھتے ہیں اور ایسے واقعات کے حوالے سے تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مجرموں کو ہر صورت سزا دی یا دلائی جاتی ہے۔

ہمارے دوست اور مقامی صحافی ودود محسود نے بتایا کہ اس افسوسناک واقعے کو مین سٹریم میڈیا نے بطورِ بریکنگ نیوز رپورٹ کیا۔

باقی دوستوں کی نسبت مجھے ذاتی طور پر میڈیا کے کردار پر کوئی حیرانگی نہیں تھی کیونکہ نائن الیون کے بعد سے لے کر اب تک وزیرستان کے حوالے سے میڈیا زیادہ تر وہی خبریں دیتا ہے جس سے علاقے کا منفی چہرہ سامنے آئے اور یہی وجہ ہے کہ وزیرستان کا نام ہی باقی دنیا کے لیے باعث وحشت ہے۔

مجھے آج بھی یاد ہے جب مکین جیسے اہم اور بڑے بازار پر براہ راست بمباری کی گئی جس میں کئی بے گناہ افراد لقمہ اجل بنے اور مین سٹریم میڈیا یہ خبر چلاتی رہی کہ وزیرستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ہونے والی بمباری سے کئی دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا گیا۔

مکین بازار پر ہونے والی بمباری کے دن راقم صرف چند منٹوں کے فرق سے بچا تھا مگر زخمیوں کی آہ بکا آج بھی سماعتوں میں محفوظ ہے۔

لدھا میں پیش آنے والے افسوناک واقع کے حوالے سے مقامی کمیونٹی مستقل کیس میں دلچسپی لیتی رہی اور اس وقت جنوبی اپر وزیرستان پولیس کے مطابق واقعے میں ملوث تین مجرموں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان سے چوری شدہ سامان بھی برآمد کیا گیا۔

اب وہ ٹی وی چینلز اس خبر کو نہیں چلا رہے جنہوں نے اس چھوٹے واقعے کو پوری دنیا تک پہنچایا اور وزیرستان کی خوبصورتی دیکھنے کی خواہش رکھنے والے سیاحوں کو خوف میں مبتلا کر دیا۔

ملک کے دیگر حصوں کے لیے یہ خبر معمولی ہو سکتی ہے لیکن وزیرستان کے لیے غیر معمولی ہے کیونکہ یہاں دو سال پہلے بھی اس طرح کے واقعے کو اس قدر نمایاں کیا گیا تھا کہ پچھلے سال سیاحوں کے آنے میں ستر فیصد کمی آگئی تھی۔

میرا ماننا ہے کہ وزیرستان کے خلاف جتنی بھی سازشیں کی جائیں یہاں کی خوبصورتی اور دلکش موسم لوگوں کو آنے پر مجبور کرتا رہے گا۔ اس سال جس تعداد میں سیاح آئے تھے وہ ہمارے لیے بھی ناقابلِ یقین تھا مگر انتہائی گرم موسم سے تنگ بالخصوص ملحقہ اضلاع کے لوگوں نے اس مصنوعی خوف کو مسترد کردیا جو سالوں سے مختلف طریقوں سے لوگوں کے ذہنوں میں بٹھایا جاتا رہا ہے اور جہاں تک اس طرح کے واقعات ہیں تو وہ کسی بھی علاقے میں پیش آ سکتے ہیں۔ البتہ ایک فرق ضرور ہوگا کہ وزیرستان کے لوگ اپنے مہمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا حساب ضرور مانگیں گے۔

قومی میڈیا کے کردار پر سوالات اس لیے بھی اٹھتے ہیں کہ کامیاب آپریشن ضرب عضب سے واپسی کرنے والے شمالی وزیرستان کے لوگوں کی روزانہ کے حساب سے ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے لیکن بریکنگ نیوز نہیں چلائی جاتی۔

کچھ عرصہ قبل فقیر ایپی کے جانشین حاجی شیر محمد کوشمالی وزیرستان میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شہید کردیا جو کہ وزیرستان کے لوگوں کے لیے کسی سانحے سے کم نہیں تھا مگر میڈیا کوریج نہ ہونے کے برابر تھی۔

تین چار دن قبل شمالی وزیرستان میں نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے اہم رہنما اور مقامی مشر ملک عتیق داوڑ کو نامعلوم افراد نے شہید کردیا مگر قومی میڈیا نے کوئی بریکنگ نیوز نہیں چلائی۔ آخر یہ دوغلا پن کیوں ہے ہمارے معاشرے میں ؟

یا پھر وزیرستان کے بدقسمت لوگ صرف سہنے کے لیے ہیں؟

ذاتی طور پر گرمیوں کے موسم میں وزیرستان میں ہی رہنے کو ترجیح دیتا ہوں بشرطیکہ کوئی ایسا کام درپیش نہ کہ باامر مجبوری جانا پڑے۔ مگر جن دوستوں سے بات ہوتی ہے ان کو ایک ہی بات معلوم ہے کہ علاقے میں امن و امان کا مسئلہ ہے۔ ایسا کہنے والوں میں اکثریت ان دوستوں کی ہے جن کا تعلق تو وزیرستان سے ہے مگر اس وقت ملک کے دیگر علاقوں میں رچ بس چکے ہیں۔ یعنی غیر تو اس منفی پروپیگنڈوں سے اثر لیں گے ہی اگر خود علاقے کے لوگوں کے ذہن بھی اس مہم سے متاثر ہو ئے ہیں۔

میرا ماننا ہے کہ اس وقت کچھ پاکٹس ایسی ہو سکتی ہیں جن کو حساس قرار دیا جا سکتا ہے مگر اکثر علاقے انتہائی پُرامن ہیں۔ ساتھ ایک چھوٹا سا نوٹ بھی لکھنا ہے کہ اگر کہیں کوئی نا خوشگواری پیدا ہوتی بھی ہے خدانخواستہ تو عام لوگوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ جنوبی وزیرستان (اپر) کا سب سے بڑا ڈویژن لدھا سب ڈویژن ہے۔ اور 2016/17 میں واپسی کے بعد اب تک آپسی دشمنیوں کے دو تین واقعات رونماء ہوئے ہیں۔ اگر اس بڑے علاقے کو مدنظر رکھا جائے اور آبادی کو بھی، تو اس کو یہاں معاشرتی جرائم کے نہ ہونے کے ثبوت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

گرمیوں کے موسم میں اس وقت وزیرستان کی آبادی قریباً واپس آچکی ہے جن میں نوجوانوں کا وہ حصہ شامل ہے جو آج کی دنیا کے ساتھ بڑھنا چاہتے ہیں، وہ طلباء وطالبات بھی شامل ہیں جو کرونا وائرس کے بعد سے آن لائن ایجوکیشن کو ترجیح دے رہے ہیں مگر اس وقت علاقے میں انٹرنیٹ سروس تقریباً بند ہے۔ جنوبی وزیرستان (اپر) میں مکمل طور پر بند ہے۔ شمالی وزیرستان میں محض ایک فیصد لوگوں کو ڈی ایس ایل کنیکشن تک رسائی حاصل ہے جبکہ لوئیر وزیرستان میں بھی محض چند علاقوں میں ٹوجی سروس دی جا رہی ہے جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس حوالے سے آرمی چیف عاصم منیر صاحب اور کور کمانڈر پشاور سے درخواست ہے کہ انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔ ان تمام موبائل ٹاورز کو بھی کنیکشنز دیے جائیں جو کافی عرصے سے تیار پڑے ہیں مگر نامعلوم وجوہات کے بنا پر ابھی تک سروس فراہم نہیں کررہے۔

آخر میں وزیراعظم شہباز شریف صاحب سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ وزیرستان میں انٹرنیٹ بندش کے معاملے میں خصوصی دلچسپی لیں۔

نوٹ :یہ کالم پہلے وی نیوز پر شائع ہوچکی ہے۔