کوئٹہ ویڈیو سکینڈل کیس میں جوڈیشل مجسٹریٹ سے سزا پانے والے ہدایت خلجی اور خلیل خلجی کو سیشن کورٹ نے بری کرنے کا حکم دیدیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ استغاثہ ویڈیو اسکینڈل کیس میں مقدمہ کو کامیاب نہیں کر پائی۔ کسی بھی معقول شک و شبہ سے بالاتر الزام لگایا گیا ہے۔ اپیل کنندگان کیس میں الزام سے بری ہیں۔ ٹرائل کورٹ کا ناقص فیصلہ قابل اعتماد نہیں ہے۔
واضح رہے کہ جوڈیشنل مجسٹریٹ 7 نے گزشتہ سال 11 اکتوبر کو نازیبا ویڈیو بنانے کے مقدمے کا فیصلہ سنایا تھا اور اسکینڈل کے دو مرکزی ملزمان ہدایت اللہ اور خلیل کو تین تین سال قید اورجبکہ پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی ادائیگی کا بھی حکم دیا تھا۔
سزا پانے والے دونوں ملزمان کے خلاف سب پہلے ایک خاتون نے کوئٹہ ے قائد آباد پولیس سٹیشن میں دسمبر 2021 میں شکایت کی تھی جس پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
اس ایف آئی آر کے مطابق خاتون نے پولیس کو بتایا تھا کہ وہ مری آباد کی رہائشی ہیں اور محنت مزدوری کرتی ہیں۔ خاتون کی جانب سے درج کروائے گئے مقدمہ کے مطابق ’میری دو بیٹیاں ہیں جن میں سے بڑی کی عمر 19 سال اور چھوٹی کی عمر 16 سال ہے جنھیں ملزمان گذشتہ دو سال سے بلیک میل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں بیٹیوں کی برہنہ ویڈیوز بنانے کے بعد ان کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا اور دونوں کو تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔
خاتون کی درخواست پر قائدآباد پولیس نے دونوں ملزمان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی نو دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔
اگرچہ خاتون نے قائد آباد میں مقدمہ تو درج کروایا لیکن اس کے بعد نہ صرف وہ اپنے گھر کو چھوڑ کر چلی گَئی تھیں بلکہ ان کی دونوں بیٹیاں بھی غائب تھیں۔
قائد آباد پولیس سٹیشن میں دوسری ایف آئی آر ایک متاثرہ لڑکی نے خود درج کروائی تھی۔
اس ایف آئی آر کے مطابق متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ وہ دو سال پہلے اپنی ایک سہیلی کے ساتھ ملازمت کی تلاش کر رہی تھیں جب انھیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بلیک میل کرنے کے بعد ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ڈال دی گئیں۔
ان کی ایف آئی آر کے مطابق ایک دن میری سہیلی نے مجھے کہا کہ وہ ایک بندے کو جانتی ہے جو ہمیں ملازمت دے گا۔‘
متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ ’ملزمان نے ایک گھر میں ہماری ویڈیو بنائی اور کہا کہ جب بھی ہم آپ کو بلائیں تو آپ لوگوں نے ہمارے پاس آنا ہے۔ کچھ دن بعد انھوں نے فون کرکے ہمیں بلایا جہاں انھوں نے ہمیں مارنا پیٹنا شروع کیا اور ہماری برہنہ ویڈیو بنائی اور یہ کہا کہ جب بھی اور جہاں ہم آپ کو بلائیں تو آپ لوگوں کو آنا ہے۔‘
متاثرہ لڑکی کا کہنا تھا کہ ’کچھ دن بعد ان کا فون آیا۔۔۔ جب ہم وہاں گئیں تو ہمارے علاوہ اس گھر میں مزید لڑکیاں موجود تھیں۔‘
اس ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ ’وہاں پر موجود لڑکیوں نے بتایا کہ ملزمان انھیں وقتاً فوقتاً وہاں بلاتے ہیں۔ انھیں نشہ وغیرہ دے کرریپ کرتے ہیں اور برہنہ کر کے ویڈیو بھی بناتے ہیں جو کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ یہ عمل دن میں کئی مرتبہ دہرایا جاتا ہے۔‘
ان لڑکیوں نے بتایا کہ برہنہ ویڈیو بنا کر ان کو بلیک میل کیا جاتا ہے اور انھوں نے ہماری بھی ویڈیوز بنائی ہیں۔
انھوں نے پولیس کو درج کروائے گئے اپنے بیان میں کہا کہ ’یہ تمام تر واقعات ہم نے اپنی عزت اور خاندان والوں کے خوف سے نہ کسی کو بتائے اور نہ رپورٹ کیے۔‘
متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ ملزمان نے ملنے اور رابطہ رکھنے سے انکار پر ’فیس بُک پر میری ویڈیو اور فوٹو جعلی آئی ڈی بنا کر اپ لوڈ کی۔
واقعہ کی تحقیقات کرنے والے ایک افسر نےایک برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ملزمان ایئرپورٹ روڈ پر واقع گھر میں لڑکیوں کو مختلف حوالوں سے جھانسہ دے کر بلاتے تھے جہاں وہ انھیں نشہ آور گولیاں اور دیگر نشہ آور چیزیں کھلا کر بے ہوش کرتے تھے۔
تحقیقاتی افسر کے مطابق بے ہوش ہونے کے بعد ان کی قابل اعتراض ویڈیوز بنا کر نہ صرف ان کو بلیک کر کے غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے بلکہ ان کو اس بات پر مجبور کرتے تھے کہ وہ ان کے لیے دوسری لڑکیاں بھی لے کر آئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب وہ ان لڑکیوں کو نشے کا عادی بناتے تھے تو پھر وہ نشے کے لیے بھی ان کے پاس جاتی تھیں۔ ان کو ٹارچر کر کے بھی غلط کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔
تحقیقات کرنے والے افسر نے بتایا کہ ملزمان کے موبائل فونز اور دیگر ڈیوائسز سے سینکڑوں ویڈیوز برآمد ہوئی تھیں تاہم جو لڑکیاں ان کی بلیک میلنگ کا شکار ہوئیں ان کی تعداد 200 کے لگ بھگ تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ بلیک میلنگ کا شکار ہونے والی لڑکیوں کا تعلق مختلف کمیونیٹیز سے تھا جو مختلف حوالوں سے ان کے جال میں پھنس گئی تھیں۔