پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے زیراہتمام خڑ کمر واقعہ کی چوتھی برسی پر اجتماع کا انعقاد کیا گیا۔
پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین،جنوبی وزیرستان ممبر قومی اسمبلی علی وزیر اور دیگر کئی سرکردہ رہنماؤں نے 26 مئی کو دتہ خیل کے خڑ کمر کے علاقے میں جا کر جاں بحق افراد کے لیے دعا کی۔
منظور پشتین نےخڑ کمر واقعہ کی چوتھی برسی کے اجتماع سے خطاب میں کہا کہ 2019 میں پرامن مظاہرین سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے مارے گئے۔
انہوں نے کہاکہ نوجوان یہاں اپنے حق کے لیے جمع ہوئے تھے، وہ اپنے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے ہاتھوں میں گلدستے اٹھائے ہوئے تھے،وہ خالی ہاتھ تھے، لیکن سیکورٹی فورسز نے ان پر گولیاں چلائیں۔ جو باقی رہ گئے گرفتار کر لیے گئے، اس لیے ہم ان شہداء کو نہیں بھول سکتے، ہم ان کی یاد میں جلسے کریں گے اور انصاف مانگیں گے۔
پشتون نے مزید کہا کہ پی ٹی ایم پشتونوں کے حقوق کے حصول کے لیے اپنی قانونی اورآئینی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
26 مئی 2019 کو شمالی وزیرستان کے علاقے خڑکمر میں سیکیورٹی چوکی کے قریب فائرنگ کے واقعے میں 15 افراد جاں بحق اور 20 سے زائد زخمی ہوگئے۔
پاکستانی فوج نے اس دن ایک بیان میں الزام بھی لگایا تھا کہ محسن داوڑ اور علی وزیر کی قیادت میں ایک گروپ نے پوسٹ پر حملہ کر کے پانچ فوجیوں کو زخمی کر دیا تھا۔تاہم، عینی شاہدین اور پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے فوج کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ فوجی جوانوں نے خڑ کمر چیک پوسٹ پر مداخیل دھرنے کے لیے جانے والے قافلے کو روکا اور پھر اس پر گولی چلائی۔
منظور پشتین نے اس وقت کہا تھا کہ تحریک کے اراکین، رہنماؤں، حامیوں اور مظاہرین اور وزیرستان کے رہائشیوں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھے۔
اس واقعے کے ایک دن بعدآئی ایس پی آرنے ایک الگ بیان میں کہا کہ خڑکمر کے کے قریب سے مزید پانچ لاشیں ملی ہیں، جنہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس واقعے کے ردعمل میں پی ٹی ایم اور پشتون قوم پرست جماعتوں نے بڑے مظاہرے کیے تھے۔
واضح رہے کہ حکومت نے شہدا پیکج کے نام سےخڑ کمرواقعے میں ہر مرنے والےکے لواحقین کو 25، 25 لاکھ روپے اور ہر زخمی کو 10 لاکھ روپے دیئے تھے۔