سیاسی نفرتیں

(ارسلان سدوزئی)

نفرت کتنی اچھی ہے،کینے کا مقصد بنتی ہے،نفرت کرنے والے بھی اچھے،نفرت جن سے وہ بھی اچھے ،ایسی نفرت کیسی نفرت،فرت تو ایک جذبہ ہے ،جذبوں سے نفرت کا کیا،جب تک نفرت کو نہ جانو،چاہت میں ڈوبو گے ،نفرت چاہت کا سایہ ہے۔

نفرتوں کے بیج بونے والوں کو شاید پتا نہین کہ پیار بانٹنے میں کیا مزہ ہے،کیونکہ ہم نے ہوش سمبھالتے ساتھ ہی لڑائی جھگڑا،نفرت گالم گلوچ کے علاوہ شاید کچھ دیکھا ہی نہیں ،تو چکھے بغیر ہم کیسے ذائقہ بتا سکتےہیں۔نفرتوں کی لذت کے پجاری کیا جانیں ،جب سے حضرت انسان اس دنیا پر آیا گندگی پھیلانے میں ماہر یہ مخلوق بیج کچھ اور رہا ہے اور اس سے پھل حاصل کرنا کچھ اور چاہتا ہے ۔

حالانکہ ایسا ہے نہیں ،کتابی باتیں تو سب کرتے ہیں، جو بو گے وہ کاٹو گے، لیکن اس کے باوجود کرتے سب برعکس ہیں ،اور پھر امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ کونین کے درخت سے آم جھڑیں گے ،میٹھا پھل کھائیں گے،تو ہو گا کچھ یوں کہ سیاست ہو یاعام زندگی ، نفرت کا بیج بونے والوں کو کیا پتا تھا کہ ایک دن یہ جھوٹ ایک جوتے کے ساتھ گومتا ہوا آئے گا اور اس کے سر پر پڑے گا،اس وقت نہ کچھ سجھائی دے گا نہ کچھ سنائی دے گا ۔

پھر چاہے آپ لندن میں ہوں کعبہ میں یا کہیں اورجو آپ نے بویا وہ کٹ کر آئے گا ،کٹ کے آئے گا بلکہ سود سمیت واپس آئے گا۔

گزشتہ کچھ سالوں سے دیکھنے سننے اور مشاہدہ کرنے میں آ رہا ہے کہ معاشرتی برائیوں میں ایک برائی کا بڑی خؤبصورتی سے اضافہ ہو رہا ہے وہ ہے سیاسی نفرت۔۔۔اب تو گل زیادہ ہی ود گئی ،پہلے سٹیج سے ایک پارٹی دوسری پارٹی کو ووٹ کے حصول کے لیے برا بھلا کہتی تھی ،الیکشن ہوئے کام تمام پھر لوگ مل بیٹھ جاتے تھے لیکن اب ایسا نہ رہا ۔

کیونکہ خبر سے افواہ جلدی پھلتی پھولتی ہے ،جھوٹ میں لذت اور سچ کڑوا ،اس لیے لذتوں کا عادی یہ معاشرہ سیاست دانوں کے ووٹ کے حصول کے لیے گھڑے جھوٹ پر سر تسلیم خم کیے بیٹھا ہے ۔۔۔مزے کی بات یہ ہے سیاست دان صرف جھوٹ بولیں تو مسلہ نہیں ،لیکن اب ان کے جھوٹ اور چرب زبانی کی جو قیمت لگ رہی ہے وہ پریشان کن ہے ،مثالیں بھی ہیں ،ایسے لوگ صرف اپنی زبان کے صدقے ہر حکومت کا حصہ رہے ،اور جھوٹ تک بات ٹھیک ہے لیکن جو طوفان بدتمیزی ان کی وجہ سے برپا ہے وہ ہماری معاشرتی اقدار کو کھاتا جا رہا ہے ۔۔

سائنس ہو یا دیگر مذاہب،ایک چیز واضع ہے کہ ہر ایکشن پر ری ایکشن لازم و ملزوم ہے ، جس نے دوسرے کو چور ڈکلئیر کیا ،اسے خود یہ سننا پڑا،جس نے دوسرے کی کردار کشی کی اور ایک الیکشن نکال تو لیا لیکن اگلی بار جب کمپین کرنے گیا تو اسے ووٹ ملنے کی بجائے گالیاں ملیں ۔