بچوں کے حقوق کےلئے ہمارے پاس قانون سازی، قواعد و ضوابط اور قومی اعداد و شمار کی کمی ہے،پارلیمنٹرینز

(فوزیہ کلثوم رانا )

اسلام آباد:سینئر پارلیمنٹیرینز نے ملک کی مضبوط بنیاد بنانے کے لیے قومی سطح پر بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قواعد و ضوابط وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے 3 دہائیاں قبل عالمی برادری کو بچوں کے حقوق کے لیے کچھ اقدامات کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن ہمارے پاس ابھی تک قانون سازی، قواعد و ضوابط اور قومی اعداد و شمار کی کمی ہے۔

ان خیالات کا اظہار قومی کمیشن برائے حقوق اطفال ( این سی آر سی)کی پہلی 3 سالہ مدت پورا ہونے پر اسلام آباد میں مقامی ہوٹل میں تقریب سے وزیر مملکت فیصل کریم کنڈی، چیئرمین دفاع کمیٹی سینیٹ آف پاکستان سینیٹر مشاہد حسین سید، سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر اور سینیٹر ڈاکٹر مہر تاج نے کیا .

قبل ازیں چیئرپرسن این سی آر سی افشاں تحسین باجوہ نے تقریب کے شرکا کو پاکستان میں بچوں کے حقوق اور قومی کمیشن کو درپیش چیلنجز سے آگاہ کیا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس محکمے ہیں لیکن ان کے پاس قوانین اور کام کے اصول نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں دارالحکومت میں بھی ایک یتیم بچی کو پناہ دینے کی جگہ نہیں مل سکی، بچوں کے مسائل کے لیے حکومت پاکستان کا قومی سطح کا مشیر مقرر کیا جائے۔ انہوں نے جی ایس پی پلس اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی فورمز میں پاکستان کی رکنیت کے لیے بچوں کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔

وزیر مملکت فیصل کریم کنڈی نے چیئرپرسن افشاں کے ریمارکس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس محکمے اور کمیشن ہیں لیکن وہ کوئی آو¿ٹ پٹ نہیں دیتے۔ ہم نوجوان قوم ہیں لیکن ہمارے نوجوانوں اور بچوں کی حالت تسلی بخش نہیں ہے۔ وزیر نے بتایا کہ بی آئی ایس پی میں حکومت بچوں کو ایک لاکھ سے زیادہ اسکالرشپ دے رہی ہے۔ ہماری ترجیح 10 سے 15 فیصد مستحقین کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہونے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ حکومت نوجوانوں کو نرم قرضے، نوکریاں اور پیشہ ورانہ تربیت دے رہی ہے۔

وزیرمملکت نے این سی آر سی کی چیئرپرسن اور ٹیم کو ان کی کارکردگی کے لیے مبارکباد دی اور اسے دوسروں کے لیے ایک مثال قرار دیا۔ انہوں نے مستقبل میں این سی آر سی کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بچوں سمیت کمزور آبادی کی بڑی تعداد موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی آواز بلند کریں اوراین سی آر سی کو بچوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ میں اسی جوش و جذبے کے ساتھ کام جاری رکھنا چاہیے۔

سینیٹر سید مشاہد حسین نے این سی آر سی کے کام کو سراہتے ہوئے کہا کہ بچوں کے حقوق ایک ایسا موضوع ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہونا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے لاپتہ افراد میں بچوں سے متعلق رپورٹ مکمل کر لی ہے۔ ڈیجیٹل سینسس بچوں کا قومی ڈیٹا تیار کرنے کا ایک موقع ہے جسے پالیسیاں بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ این سی آر سی نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی اور میں یہاں کمیشن کی دو اہم کامیابیاں بیان کرسکتا ہوں۔ این سی آر سی نے اٹک میں ایک فرقہ کے طلبائ کا مسئلہ حل کیا جن کو صرف ان کے والدین کے مخصوص عقیدے کی وجہ سے نکال دیا گیا تھا، میں نے این سی آر سی سے دو بچوں پر پولیس کے تشدد کی شکایت کی۔ کمیشن نے بچوں کو انصاف فراہم کیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر اپنے بچوں کو محفوظ بنانا ہے تو ہمیں سکیورٹی سٹیٹ کے بجائے فلاحی ریاست بنانا ہو گی۔ میڈیا کو حکومت سے پوچھنا چاہیے کہ آپ نے بچوں کے حقوق کے حوالے سے عالمی برادری کے ساتھ اپنے وعدوں پر کیا کیا؟

سینیٹر ڈاکٹر مہر تاج نے امید ظاہر کی کہ میڈیا صرف سنسنی خیز خبروں کو اجاگر کرنے کی بجائے ماو¿ں اور بچوں کے اصل مسائل کو اجاگر کرے۔ انہوں نے ماو¿ں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بچوں کو دودھ پلائیں تاکہ ملک میں شرح اموات کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ متبادل دودھ کی صنعت ایک مافیا ہے جس پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ انہوں نے بچوں کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات پر زور دیا۔

ارکان پارلیمنٹ نے عہد کیا کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر این سی آر سی کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔