سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کے فیصلے خلاف قرار داد منظور

قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کے فیصلے خلاف قرار داد منظور کر لی گئی۔

اسپیکر راجا پرویز اشرف کی صدارت میں شروع ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف بھی شریک ہوئے.

وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے ایوان میں تحریک پیش کی کہ رولز معطل کرکے قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی جائے جس کی منظوری کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر خالد مگسی نے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کا فیصلہ مسترد کرنے کی قرارداد ایوان میں پیش کی۔

قرار داد پیش کرتے ہوئےخالد مگسی کا کہنا تھا کہ 28 مارچ 2023 کو معزز ایوان کی منظور کردہ قرار داد میں از خود نوٹس کیس نمبر 1، 2023 کے سپریم کورٹ کے چار جج صاحبان کے اکثریتی فیصلے کی تائید کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد اور اعلیٰ عدلیہ سے سیاسی اور انتظامی امور میں بے جا مداخلت سے گریز کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اکثر حلقوں نے بھی فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسے منظور نہیں کیا گیا، نہ ہی ایک کے سوا دیگر سیاسی جماعتوں کا مؤقف سنا گیا، پارلیمنٹ کی اس واضح قرار داد اور سپریم کورٹ کے چار جج صاحبان کے اکثریتی فیصلے کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے تین رکنی مخصوص بینچ نے اقلیتی رائے مسلط کردی، جو سپریم کورٹ کی اپنی روایت، نظائر اور طریقہ کار کی بھی خلاف ورزی ہے۔

خالد حسین مگسی نے مزید کہا کہ اکثریت پر اقلیت کو مسلط کر دیا گیا، تین رکنی اقلیتی بینچ کے فیصلے کو پارلیمان مسترد کرتی ہے اور آئین اور قانون کے مطابق اکثریتی بینچ کے فیصلے کو نافذ عمل قرار دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس آئین پاکستان کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر مقدمات کو فل کورٹ اجلاس کے فیصلوں تک سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کی تائید کرتا ہے اور ایک ایگزیکٹیو سرکلر کے ذریعے اس پر عملدرآمد روکنے کے اقدام کو گہری تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔

رکن قومی اسمبلی خالد حسین مگسی نے کہا کہ یہ ایوان اُسی عدالتی فیصلے کو عجلت میں ایک اور متنازع بینچ کے روبرو سماعت کے لیے مقرر کرنے اور چند منٹوں میں اس پر فوری فیصلے پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کرتا ہے کہ ایسا عمل سپریم کورٹ کی روایات اور نظائر کے صریحاً خلاف ہے لہٰذا یہ ناقابل قبول ہے۔

ان کی طرف سے پیش کردہ قرار داد میں مزید کہا گیا کہ یہ ایوان سیاسی معاملات میں بے جا عدالتی مداخلت پر تشویش کا اظہار کرتا ہے، حالیہ اقلیتی فیصلہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کررہا ہے اور وفاقی اکائیوں میں تقسیم کی راہ ہموار کر دی گئی ہے، لہٰذا یہ ایوان ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے آئین اور قانون میں درج طریقہ کار کے عین مطابق ملک بھر میں ایک ہی وقت پر عام انتخابات کے انعقاد کو ہی تمام مسائل کا حل سمجھتا ہے۔

قرار داد میں مزید کہا گیا کہ یہ ایوان تین رکنی بینچ کا اقلیتی فیصلہ مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم اور کابینہ کو پابند کرتا ہے کہ اس خلاف آئین و قانون فیصلے پر عمل نہ کیا جائے۔

مزید کہا گیا کہ یہ ایوان دستور کے آرٹیکل 63 (اے) کی غلط تشریح اور اسے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے ذریعے ازسرنو تحریر کیے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ اس پر نظر ثانی کرے۔

بعد ازاں اراکین قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے قرار داد منظور کر لی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی محسن لغاری نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ میرا پارلیمنٹری تجربہ یہ بتاتا ہے جو مخالفت کرنے والے لوگ ہوتے ہیں، انہیں قرارداد پر ووٹنگ کروانے سے قبل بولنے کا موقع دیا جاتا ہے تاکہ وہ بھی اپنا کیس پیش کرسکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں بار بار یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ہم اگر ایک اصول اور طریقے کے ساتھ چلیں گے تو میرے خیال میں اس ملک کے لیے بھی بہتری اسی میں ہوگی ۔

انہوں نے کہا کہ اس ایوان کو ایک ایوان ہی رہنے دیں، ہم اس کو جلسہ گاہ نہ بنائیں تو بہتر ہوگا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 4 اپریل کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا تھا اور 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔