نقیب اللہ محسود قتل کیس کے متعلق کراچی انسداددہشت گردی عدالت کا فیصلہ سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج

کراچی:نقیب اللہ محسودقتل کیس سے متعلق کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے مقتول نقیب اللہ محسود کے اہل خانہ نے کی انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

نقیب اللہ محسود کے خاندان کے وکیل جبران ناصر نے 20 فروری کو کراچی میں صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور توقع ہے کہ پہلی سماعت کل (21 فروری) کو ہوگی۔

نقیب اللہ محسود کے بھائی عالم شیر نے یہ درخواست 20 فروری کو عدالت میں جمع کرائی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

اس سے قبل 23 جنوری کو کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ محسودکے نام سے مشہور جنوبی وزیرستان کے رہائشی نسیم اللہ قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پولیس افسر راو¿ انوار سمیت تمام ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

کراچی جیل کے اندر عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ ’ناکافی شواہد‘ کے باعث کراچی کے علاقے ملیر کے سابق پولیس سربراہ راو انوار سمیت تمام 25 پولیس اہلکاروں کو بری کر دیا گیا۔عدالت نے کہا کہ کیس کی تفتیش کرنے والی پولیس الزامات ثابت کرنے یا عدالت میں ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور پشتون تحفظ موومنٹ نے عدالت کے اس فیصلے پر تنقید کی۔پشتون تحفظ مومنٹ (پی‌ٹی ایم )کے رہنماﺅں نے 19 فروری کو کراچی میں جلسہ عام کے دوران بھی یہ مسئلہ اٹھایا۔ پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین نے کہا کہ وہ نقیب اللہ محسود کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ راو انوار کو عدالتوں نے رہا کر دیا لیکن امریکہ اور برطانیہ نے ان پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

واضح رہے کہ نقیب اللہ محسود کو 13 جنوری 2018 کو گرفتاری کے بعد تین دیگر افراد کے ساتھ قتل کر دیا گیا تھا۔ اس وقت کراچی کے علاقے ملیر کے سابق پولیس چیف راو انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے فائرنگ کے تبادلے میں ’دہشت گردوں کو مارا‘ لیکن بعد میں سندھ پولیس کی تحقیقاتی ٹیم نے اسے ’جعلی مقابلہ‘ قرار دیا۔