میاں‌نوازشریف کی نااہلی غیرقانونی تھی

(عامرحسن قریشی)

میاں نواز شریف کی نااہلی کے جانبدارانہ, ظالمانہ اور غیر قانونی فیصلے کے خلاف میرے تحقیق کردہ قانونی نکات جو میاں صاحب کی لیگل ٹیم کو اور ججز کیلئے آنے وقت میں مفید ثابت ہوں گے-

جو پیسے یا جائیداد آنے والے وقت میں وصول ہونے ہوں, انکو ڈکلئیر نہ کرنا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قانون کے تحت “اثاثے چھپانے” میں شمار نہیں ہوتا-

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قوانین کے سیکشن 60, 110 اور 137 کے تحت انتخابات میں حصّہ لینے والے امیدواران اپنے اثاثہ جات اور واجبات کی فہرست داخل کرتے ہیں جسے Form-B کہا جاتا ہے-

کیونکہ میاں نواز شریف کی نااہلی کےفیصلے میں بیٹے سے تنخواہ وصول نہ کرنا اپنے اثاثے کو چھپانے کے مترادف جرم قرار دیا گیا تھا,اسلئے آئیں ذرا تفصیل کیساتھ دیکھتے ہیں کہ مذکورہ فارم میں اثاثہ جات اندراج والی سائیڈ پر مطلوب معلومات کیا ہیں.

(1) غیر منقولہ جائیداد
(a) پاکستان میں
(b ) پاکستان سے باہر
2) منقولہ اثاثے
(a) کاروبار اور سرمایہ – پاکستان میں
(b) کاروبار اور سرمایہ – پاکستان سے باہر
(c) پاکستان کے باہر سے خریدے گئے اثاثے
(d) اثاثے جو پاکستان کے باہر سے بھیجی گئی
ترسیلات سے خریدے گئے-
(e) سرمایہ کاری (انویسٹمنٹ)
( f) گاڑیاں
(g) جیولری
(h) کیش اور بینک بیلنس
( i) فرنیچر فٹنگز اور ذاتی استعمال کی اشیاء
(j) کسی دوسرے شخص کو منتقل شدہ اثاثے
(k) دیگر اثاثہ جات

اس فارم میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ یہاں مستقبل میں قابل وصول آمدنی یا اثاثوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے-مزید خاص بات یہ کہ کیٹگری یعنی سرمایہ کاری (انویسٹمنٹ) میں جو معلومات فراہم کرنی ہیں ان میں شامل ہیں.

(i) اسٹاک اور شیئرز
(ii) ڈیبینچرز
(iii) این آئی ٹی یونٹس
(iv) آئی سی پی سرٹیفکیٹس
(v) نیشنل سیونگز کی سکیمیں بشمول ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس, اسپیشل سیونگ سرٹیفکیٹس اور ریگولر انکم سرٹیفکیٹس
(vi) بغیر سیکورٹی کے قرضے
(vii) مارٹگیج; اور
(viii) کوئی اور سرمایہ کاری

مندرجہ بالا تمام انویسٹمنٹس کی معلومات فراہم کرتے وقت شیئرز, یونٹس اور سیونگ سرٹیفکیٹس کی صرف فیس ویلیو کی رقم یعنی ان پر درج شدہ رقم انکے سامنے کے کالم میں لکھنی ہوتی ہے جبکہ ان تمام انویسٹمنٹس پر رواں مالی سال میں منافع بھی قابل وصولی ہوتا ہے لیکن ECP انکی بھی متوقع آمدنی کی تفصیل نہیں مانگتا- نہ ہی قابل وصول منافعے کا اندراج نہ کرنا کوئی جرم ہے- اس لئے جو تنخواہ نہیں لی اسے ڈیکلیر نہ کرنا “اثاثے چھپانے” کے الزام کے تحت سزا کا موجب نہیں بنتا- اکاؤنٹنگ سٹینڈرڈزکے تحت آئندہ وصول ہونے والے اثاثے receivable assets کہلاتے ہیں لیکن ECP کے فارم کے تحت یہ تفصیل کسی بھی جگہ درکار نہیں ہے-

میاں صاحب کی نااہلی کسی بھی قانون کے تحت بنتی ہی نہیں تھی- نااہلی کا فیصلہ زبردستی تھوپا گیا تھا جسکے آرکٹیکٹ باجوہ ڈاکٹرائن کے کردار اور SC کےججز تھے