وزیرستان میں شادی کی رسم !

حیات پریغال

‏شادی بیاہ پر ہر علاقے کی اپنی رسمیں و رواج ہوتے ہیں۔ اسی طرح محسود علاقے میں اپنے روایتی و پرانے شادی بیاہ کے رسم و رواج آج بھی کہیں نا کہیں تمام زندہ ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں سے تبلیغی جماعت کی وجہ سے لوگ زیادہ تر رسموں و رواجوں کو چھوڑ رہے ہیں کیونکہ بقول ان لوگوں کے ھمارے زیادہ تر رواج غیر اسلامی یا کسی دوسرے مذاہب سے ملتے جلتے ہیں جو کہ ایک انتہائی نامعقول بات ہے ۔

آئیں آج آپکو وزیرستان میں شادی بیاہ کی رسم اور شادی کے تین دن جاری رہنے والے رواجوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔

ھمارے ہاں شادی سے ایک دو دن پہلے دلہن اپنے رشتہ داروں کے گھر چھپ جاتی ہے، بارات آتی ہے اسکے کپڑے یا سامان لاتی ہے۔ جو اسکو دوسرے گھر میں تیار کرکے پہنایا و سجایا جاتا ہے، زیادہ تر رشتہ داروں کے گھر وہ چھپتی ہے۔ وہاں دلہن کے گھر میں ایک رات گزارتی ہے، اگلے صبح دلہن کو دوسرے گھر سے لاکر اپنے گھر سے رخصت کیا جاتا ہے۔ اس گھر کو خصوصی تحفہ دیا جاتا ہے۔ اسکے بعد گاؤں کے نوجوان دلہن کی گاڑی کے سامنے روڈ یا راستہ بلاک کرکے پیسوں کی ڈیمانڈ کرتے ہیں جو انکو دے دیا جاتا ہے۔

شادی پر تو دلہا اکثر موجود نہیں ہوتا۔ اب طالبنائزیشن و تبلیغائزیشن کے پندرہ بیس سال کے بعد کچھ ایسا رواج بن رہا ہے کہ نکاح کے دوران دلہا لازم موجود رہتا ہے ورنہ تو زیادہ تر قبائلی معاشرے میں مرد دبئی یا کسی اور شہر میں ہوتا ہے دلہن بیاہ کر لائی جا چکی ہوتی ہے ۔ وہ مہینے و سال تک سہاگ رات کا انتظار کرتی ہے۔

دوسرے شادی بیاہ کے رسموں میں دلہن کا گھر میں داخلے سے پہلے دروازے پر ایک میخ ٹھوکنا ہوتا ہے جسکا مطلب ہوتا ہے کہ دلن اب پکی اس گھر کی ہوچکی ہے۔ اس کے بعد تین فائر کئے جاتے ہیں۔ گھر کے اوپر سے ان پر پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔ پھر دلہن کچھ گندم جو یا چینی تین تین بار دائیں بائیں کے اطراف میں پیچھے کیطرف پھینکتی ہے۔ جب پہلی بار گھر کے اندر بیٹتھی ہے تو وہ بیٹھنے سے انکار کر دیتی ہے اور تب تک نہیں بیٹھتی جب تک سارے گھر کا واک و اختیار اسکو نہ سونپ دیا جاتا ہو، جو اسکی ساس یا گھر کی بڑی بہو اسکو سونپ دیتی ہے ۔ بیٹھنے کے بعد  اسکے آس پاس بندوق رکھے جاتے ہیں کہ تمھاری حفاظت اب ھماری زمہ داری، پھر ایک چھوٹا بچہ دلہن کی گود میں بیٹھایا جاتاہے اسکو دلہن ہلکا کاٹتی ہے جس پر وہ رو لیتا ہے، اسکو پہلی منہ دکھائی بولا جاتا ہے۔ اس بچے کو دلہن پھر کچھ پیسے یا مٹھائی دیتی ہے۔

اسکے بعد پہلے عورتیں دلہن کا چہرہ دیکھتی ہیں۔ وہ باقی چہرہ چھپا کر رکھتی ہے صرف آنکھیں دکھاتی ہے۔ اسکے بعد گھر کے وہ افراد جن سے دلہن کا پردہ نہیں ہوتا۔ مطلب دلہے کا بھائی کزنز وغیرہ یعنی مرد اسکا چہرہ دیکھتے ہیں۔اسکے بعد دلہن سستانے لیجائی جاتی ہے۔ اور بڑے کھانے کا پروگرام دوبارہ دولہے کے گھرہوتا ہے۔ اگلے دن کو خڑا ریز یعنی بدمزا دن کہا جاتا ہے۔ تیسرے دن کو درئیمہ یعنی تیسرا کہا جاتا ہے۔ اس دن خصوصی خوراک گینگڑے جو گندم ،جو اورمختلف دالوں سے بنتے ہیں وہ پکتی ہے یا میٹھے چاول پکائے جاتے ہیں۔ دلہن کو گاؤں کے چشمے لیجایا جاتا ہے جہاں وہ چشمے کے پانی میں ٹافیاں، گندم اور جو وغیرہ پھینکتی ہے۔ جن پر بچوں کا لشکر امڈ آتا ہے۔ اسکے بعد اسکے سر پر پانی کی بالٹی گھر تک لائی جاتی ہے۔ تاکہ وہ گھر سے چشمے کا راستہ و گھر کا کام کرنا سیکھ جائے ، اسی دن دلہن کے والدین کے گھر سے ساتھ لایا سامان دیکھا جاتا ہے۔ لوگوں کو رشتہ داروں کو اس میں سے تحفے دئیے جاتے ہیں۔ دلہن یا اسی دن یا ایک دو دن بعد واپس اپنے گھر جاتی ہے اور میکے سے سسرال واپسی پر اپنے ساتھ میٹھائی وغیرہ لاتی ہے جو سارے گاؤں میں تقسیم کردی جاتی ہے، سسرال سے پہلی دفعہ میکے جانے اور میکے سے واپس آنے کے رواج کو ساروور کہاجاتا ہے۔