مولانا کا دورہ افغانستان اور پختونخوا کے حالات

شہریار محسود
خیبر پختونخوا کے بارڈر ریجن میں حالات اس سے کہیں زیادہ خراب ہیں جتنے مین سٹریم میڈیا میں رپورٹ ہو رہے ہیں اور بد قسمتی سے حکومتی اقدامات سے کوئی بہتری آنے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ مولانا فضل الرحمان کے دورہ افغانستان کو کافی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا تھا لیکن ٹھیک اسی دن جب وہ کابل پہنچے، باجوڑ پولیس پر ایک بڑا حملہ ہوا جس سے کئی جانیں ضائع ہوئیں اور درجنوں پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ ان میں سے کئی پولیس اہلکاروں کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ باجوڑ واقعے نے اس دورے سے رکھی جانے والی توقعات کو کافی دھچکا پہنچایا ہے۔

مولانا فضل الرحمان کے دورے کے حوالے سے کئی ہفتوں سے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ اس دوران مولانا کی طرف سے انتخابی مصروفیات کی وجہ سے دورہ افغانستان ملتوی ہونے کی خبریں بھی سامنے آ رہی تھیں۔ دورے کی تاخیر کی وجوہات کے حوالے سے ذرائع بتا رہے تھے کہ مولانا سمجھتے ہیں کہ طالبان کے سپریم لیڈر سے ملاقات کے بغیر دورہ بے معنی ہو گا۔ ان کا دورہ بھی اسی صورت میں ممکن ہوا جب ان کو یقین دہانی کرائی گئی کہ طالبان سپریم لیڈر سے ملاقات ہوگی۔

اس حوالے سے سینئیر افغان صحافی سمیع یوسفزئی نے اپنے ایکس (ٹویٹر) اکاؤنٹ پر افغان طالبان ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ افغان سپریم لیڈر شیخ ھیبت اللہ کئی وجوہات کی بنا پر مولانا فضل الرحمان سے ملاقات نہیں کر رہے۔ اگر سمیع یوسفزئی کا دعویٰ درست ثابت ہوجاتا ہے تو یہ دورہ بالکل ہی غیر مؤثر ہو جاتا ہے کیونکہ عبوری حکومت میں اگر کوئی مکمل صاحبِ اختیار ہے تو وہ طالبان سپریم لیڈر ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر اشرف غنی دور کے سابقہ ذمہ دار دعویٰ کر رہے ہیں کہ ملاقات ہو گی لیکن اس کو صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ سوال پھر یہ بھی پیدا ہوگا کہ خفیہ ملاقات اگر ہو بھی جاتی ہے تو اس کا حاصل حصول کیا ہو سکتا ہے؟ کیونکہ مسئلے خفیہ نہیں ہیں اور اتنی تلخیوں کے بعد پاکستانی پالیسی ساز اس معاملے میں طالبان کے سپریم لیڈر کے کردار کی طرف ضرور دیکھ رہے ہوں گے۔

مولانا کے افغان وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا بیان خوشگوار اثرات کا حامل نہیں تھا، جس میں انہوں نے افغان عبوری حکومت کے پرانے مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی کا مسئلہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے۔ مشال ریڈیو سے وابستہ سینئیر صحافی داؤد خٹک نے بھی اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ٹی ٹی پی کی سینئیر قیادت کابل میں مولانا فضل الرحمان سے مل رہی ہے لیکن اس حوالے سے بھی سمیع یوسفزئی کی خبر اس ملاقات کی تردید تھی۔

ٹی ٹی پی قیادت کی ملاقات اگر مولانا سے ہو بھی جاتی ہے تو ٹی ٹی پی کے مؤقف میں کوئی نمایاں تبدیلی آنے کا امکان کم ہی نظر آ رہا ہے کیونکہ معاہدہ سراروغہ سے لے کر جتنے بھی معاہدے ہوئے، سب میں جے یو آئی کے عہدیداروں نے اہم کردار ادا کیا لیکن ان تمام معاہدوں پر عملدر آمد نہیں ہوا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مولانا کا دورۂِ افغانستان با مقصد تب ہی بن سکتا تھا جب انہیں طالبان کے سپریم لیڈر کی طرف سے یقین دہانی ملے یا اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے راضی ہو جائیں۔

اس دورے کے حاصل کردہ فوائد پر فوری بات کرنا مناسب نہ ہوگا۔ میرا ماننا ہے کہ مولانا کے دورے کے حوالے سے جو رائے عامہ بنائی گئی، بالخصوص دہشت گردی کے جنگ پر عبور حاصل کرنے والے صحافیوں کی طرف سے، وہ زمینی حقائق سے کافی دور تھی۔ کیونکہ دہشت گردی سے متاثرہ علاقے کے ایک فرد کی حیثیت سے ہمیں اندازہ ہے کہ ٹی ٹی اے اور ٹی ٹی پی دونوں میں مولانا کے لیے کوئی خاص مثبت جذبات نہیں پائے جاتے اور دونوں گروپوں کے پاس اس حوالے سے ٹھوس دلائل بھی موجود ہیں کیونکہ افغانستان اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں گزشتہ 20 سالوں سے جنگ جاری ہے اور اس دوران مولانا صاحب کے سیاسی مفادات دونوں گروپوں کے مفادات کے بالکل برعکس رہے۔ یعنی اس دورے سے 2 باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں یا تو صرف دورہ ہی کرانا تھا اور افغانستان کے ساتھ امن لانے کے لیے کی گئی کوششوں کے سلسلے میں اپنے پاس ایک جواز کا اضافہ کرنا تھا یا ایک بار پھر غلط اندازہ لگایا گیا تھا۔

ہمارے ہاں پاکستان میں مبصرین زمینی حقائق سے کافی دور تواتر سے کہتے ہیں کہ افغان طالبان میں مولانا کے کافی شاگرد واقع ہوئے ہیں جو ان کے لیے احترام کا رشتہ رکھتے ہیں جو کہ کافی حد تک مبالغہ قرار دیا جا سکتا ہے اور اگر ایسے ذمہ داران وہاں موجود بھی ہیں تو ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں۔ دوسری طرف اگر بات شاگردی یا احترام کی ہے تو افغانستان کے موجودہ سیٹ اپ میں زیادہ تر ایسے ذمہ داران موجود ہیں جو مدرسہ اکوڑہ خٹک سے سند یافتہ ہیں۔ ایسی صورت میں تو مولانا سمیع الحق مرحوم کے بیٹے مولانا حامد الحق کو زیادہ حمایت حاصل ہونی تھی؟

مولانا کے دورہ افغانستان کا حاصل حصول جو بھی ہو لیکن اس وقت حقیقت میں خیبر پختونخوا کے حالات بدتر ہیں اور یہاں امن کے حصول کے لیے سر جوڑ کر کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور ایسے امن کی ضرورت ہے جو کسی اور کے گھر کو جلائے بغیر ممکن بنایا جا سکے۔