اسلم محسود
8سال گزر گئے لیکن شہید صحافی زمان محسود کے قاتل قانون کے شکنجے سے آزاد ہیں اور نہ ہی ابتک قاتلوں کی نشاندہی ہوئی ہے. 3نومبر 2015 کو شہید صحافی زمان محسود نہ صرف صحافی برادری کے لیےشہادت کے بعد ایک امتحان چھوڑگئےبلکہ کوڑ قلعہ چیک پوسٹ جہاں پر سیکیورٹی فورسز کا پورا بریگیڈ موجود ہوتا تھاکی کارکردگی پر سوالیہ نشان چھوڑ گئے کیونکہ کوڑ چیک پوسٹ سےچند قدم کے فاصلے پر کوئی نامعلوم ایک معروف صحافی کو کیسے قتل کرکے فرار ہونے میں کامیاب ہوسکتےہیں.
3نومبر کو صحافی زمان محسود کو نامعلوم افراد نے اس وقت گولی کا نشانہ بنایا جب وہ ضلع ٹانک کے علاقے سرنگزونہ کے گاؤں نرسیز سے صحافتی سرگرمیوں کے لیے ٹانک جارہے تھے کہ راستے میں نامعلوم افراد نے بمقام کوڑ چیک پوسٹ سے دوسو میٹرکے دوری پر فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا اورزخمی حالات میں ٹانک ڈی ایچ کیو ہسپتال منتقل کردیاگیاجوبعدمیں ڈیرہ اسماعیل خان ہسپتال ریفر کردیا لیکن وہ ڈیرہ ہسپتال میں زخموں کے تاب نہ لاتے ہوے شہید ہوگیا. جنازہ وتدفین گومل نرسیزفقیر آباد کے قبرستان میں ہوئی.
زمان محسود کا تعلق جنوبی وزیرستان علاقہ منتوئی سے تھا ،وہ روزنامہ امت کراچی،صباح نیوز ایجنسی،ڈیلی نئی بات پشاور و دیگر لوکل اخبارات کے ساتھ منسلک تھے اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ٹانک کوآرڈینیٹربھی تھے.
زمان محسود کے قاتل تاحال قانون کے شکنجے سے آزاد ہیں.تعجب کی بات یہ ہے کہ درجنوں سیکیورٹی اداروں کے باوجود نہ ہی اس کے قاتلوں کی نشاندہی ہوئی ، نہ ہی گرفتار ہوئے اور سزائیں تو دور کی بات ہےتمغہ جرات و شجاعت ہر سال سرکاری لوگوں کے نصیب میں ہوا کرتے ہیں مگر سرکار و عوام کے مابین پل کا کردار ادا کرنے والے شہید صحافیوں کے خاندانوں کے نصیبوں میں صرف تعزیتیں لکھی ہوتی ہیں۔
شہید صحافی زمان محسود کے نظریات اور قوم کے لئے انکا درد اور انکی صحافت دیکھ کر عجیب سا لگتا تھا کہ اس خوف کے ماحول ، ہر سو منڈلاتی موت کے منہ میں رہ کر بھلا کوئی سر پھیرا اور پاگل ہی ایسا کریگامگر صحافیوں کی یہ ذمہ داری ہے جو زمان محسود کر رہا تھا۔ بہت ہی کھٹن حلات میں وہ لائن آف ڈیوٹی میں مصروف رہ کر قوم کی ترجمانی کرتے رہے۔ اور بالآخر انہی زمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے جان دے دی۔
زمان محسود کے شہادت کا یہ پہلا واقع نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے شمالی وزیرستان 2005ء میں صحافی حیات اللہ کو بھی شہید کیا گیاتھا حیات اللہ وزیر کی بیوہ نے ہمت کی کیونکہ انصاف دلانے والوں نے یقین دلایا تھا کہ ’’تم تعاون کرو، انصاف ملے گا۔‘‘ وہ گئی اور جوڈیشل کمیشن کے سامنے بیان ریکارڈ کرایا بتایا کون لوگ تھے مارنے والے، شناخت کیلئے بھی تیار تھی ۔ یہ بیان ہی اُس کی موت کا پروانہ بن گیا اور وہ بھی ’’شہدائے صحافت‘‘ کے قافلے میں شامل ہوگئی اس کے بعد شہادتوں کی سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ جنوبی وزیرستان وانا میں خون کی ہولی کھیلی گئی.
وانامیں صحافی امیر نواب اور اللہ نور 7 فروری 2005 کو جنوبی وزیرستان کی تحصیل سراروغہ میں ضلعی انتظامیہ اور طالبان کمانڈر بیت اللہ محسود کے مابین ہونیوالے معاہدے کے بعد واپس وانا جارہے تھے کہ ہیڈکوارٹر ہسپتال وانا کے پاس نامعلومافراد نے ان کی وین پر فائرنگ کی،جس کے نتیجہ میں امیر نواب اور اللہ نور موقع ہی پر شہید ہوگئے تھے جبکہ انور شاکر شدید زخمی ہو گئے تھے.
شہدائے صحافت‘‘ کا قافلہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے کوئی کسی وجہ سے مارا جارہا ہے کوئی کسی وجہ سے مگر خیبر پختونخواہ میں درجنوں صحافی شہید ہوئے ہیں لیکن صحافیوں کے قاتل قانون کے شکنجے نہیں آیا آزاد ہے،مارنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جتنے بھی صحافی مار دیں ہمیں کچھ نہیں ہوگا مگر اُنہیں خبر نہیں کہ ہر صحافی کی موت قوم کی حیات ہے کہ اِدھر شہدائے صحافت میں اضافہ ہورہا اُدھر ہرسال نئے صحافیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ وہ قاتلوں کو چیلنج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ نوجوان جان کی پروا کئے بغیر خبر کی لگن میں نکل پڑتے ہیں اور ایسے میں کوئی نہ کوئی تیار بیٹھا ہوتا ہے۔
’’آزادی صحافت‘‘ کے عالمی دن کے موقع پر کس کس کو تسلی دینگے کہ یہ واقعات رک جائیں گے۔ اِن شہداء کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار یکجہتی ہی کیا جاسکتا ہے اور معذرت کہ ہم اپنے ساتھیوں کے قاتلوں اور قتل کروانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لا پائے۔
آج نہ صحافت آزاد ہے نہ صحافی۔ پرنٹ میڈیا سے سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں اظہار رائے ایک موثر ہتھیار کے طور پر سامنے ضرور آیا ہے مگر اُس کے اوپر بھی اب خوف کے ایک چھپ ہونے کی تلوار’’ لٹکا دی گئی ہے۔ کاش جتنی تیزی سے اس قانون کا سہارالے کر سوشل میڈیا کے لوگ اٹھائے جاتے ہیں اسی طرح صحافیوں کے قاتل بھی پکڑ لیتے تو شاید ’’شہدائے صحافت‘‘ کی فہرست آگے نہ بڑھتی یا کم از کم اس تیزی سے اضافہ نہ ہوتا۔