کنجر کون

ارسلان سدوزئی

میری دادی ایک بار میرے ساتھ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی ۔تو عاطف اسلم کا کوئی گانا چل 2میری دادی نے برملا پوچھا،بیٹا آجکل یہ گانے بجانے والے کھاتے کہاں سے ہیں ،اب لوگوں کے ہاں اولاد ہوتی نہ ادھر گانے آتے نہ کہیں اور نظر آتے ۔توپھر نہ انہیں کوئی دانے دیتا نہ آٹا پھر کہاں سے کھاتے پیتے ہیں یہ لوگ؟سو سمجھایا میں نے اپنی دادی کو کہ یہ آرٹسٹ ہے ۔لیکن ساری باتیں بے سود ہو گئیں جب بولیں”پتر ہے تے کنجر ہی نہ”

یہ ہے ہماری معاشرتی سوچ ،گانے بجانے والا تقریبا عرف عام میں اسے کنجر ہی سمجھا جاتا ہے ۔دوسری طرف میرے بچپن نہیں بلکہ لڑکپن تک امام مسجد کی اتنی عزت دیکھی میں نے یقین کریں جب مولانا صاحب دعا کرانے آتے تھے فائیو سٹار پروٹوکول ملتا دیکھا ،بہترین کھانا دیا جاتا تھا ، بہترین بیٹھنے کی جگہ ۔لیکن وقت گزرتا گیا ۔مولویوں نے کنجروں کی جگہ لے لی اور کنجروں (آرٹسٹ) نے ان مولویوں کی اور پھر آج ایک تصویر دیکھی میں نے آرٹسٹ حدیقہ کیانی نے 2005 کے زلزلے میں ایک بچہ گود لیا تھا جو آج 18سال کا ہونے پر انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر جاری کی ۔اللہ پاک ان پر رحمتین نازل کرے اچھی خآتون ہے اور مزید معاشرتی اچھائی کرنے کی انہیں ہمت دے ۔ شکر ہے وہ بچہ کسی مولوی کے ہتھے نہیں چڑھ گیا نہیں تو اس میں اسلام انجکٹ کیا جاتا۔اور وہ پھرآگے اس نیکی کو پھیلاتا۔

اور پھر دوسرا واقعہ ماشااللہ پیارے پیارے میٹھے میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ایک مولوی نے اسلام آباد کے مضافاتی علاقے میں چھوٹے بچے کے ساتھ عید میلاد النبی والے دن زیادتی کی ۔زیادتی کرنے کے بعد والدین کو دھمکایا ۔کہ پولیس کو بتایا تو آپ کی خیر نہیں ہو گی ۔

اب فیصلہ آپ کریں کنجر کون؟
تو عزت سے زلت تک کا سفر طے کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا ۔نہ ہی کوئی محنت کرنی پڑی ۔بس اپنی حرکتیں بہتر کیں مولویوں نے،مدرسہ جو کبھی بہترین ماڈل تھا اسے بدنام کیا مولویوں نے۔مسجد جو ہر قسم کے مسائل کے حل کے لیے بنی تھی ۔۔آپ مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو سامنے لکھا نظر آتا ہے ۔یہاں پر سیاسی گفتگو اور دنیاوی باتوں سے پرہز کریں ۔تو اگر میں غلط نہیں تو چھوٹے ہوتے ہمیں پڑھایا جاتا تھا کہ مسجد نبوی میں جنگوں کی تیاریوں کے حوالے سے بیٹھک ہو رہی ہے ،لوگ حضور سے آ کر اپنے مسائل پر بات کر رہے ہیں ۔تمام تر دنیاوی باتیں مسجد نبوی میں ہی ہوتی تھیں ۔درس و تدریس بھی ہوتی تھی ،اور نماز بھی ۔

لیکن مولوی نے آ کر آوے کا آوا بگاڑ دیا ۔مسجد کو چندہ گاہ بنا دیا۔مدرسے میں ماحول اتنا پاک کر دیا کہ والدین اپنے بچوں کو بھیجتے ڈرتے ہیں ۔

ہمارا معاشرتی نظام کس ڈگر میں چل رہا ہے ۔سمجھ سے بالا تر ہے ۔مولوی الیٹ کلاس کا دلال بن کر رہ گیا ۔ایلیٹ ملک کو لوٹ رہی ہے اور مولوی عوام کو ڈراتا ہے یہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے ۔ماشااللہ سے ہماری عوام بھی ایسی سوچ کی حامل ہے کہ مدرسہ زدہ بچہ جو بڑا ہو کر مولوی کا روپ دھارتا ہے تو اس کی باتوں میں آتے ہیں ۔

حکومت تو نہیں کر سکتی کیونکہ حکومت نے آج تک کوئی اچھا کام کیا نہیں نہ میں نے دیکھا۔عوام سے التجا ہے کہ مولوی نما گدھ جو ہماری اقدار کو نوچ رہے ہیں انہیں کم از کم مساجد میں نہ گھسنے دیں ،جس کا دل کرے جا کے ازان دے، جس کا دل کرے امامت کرائے اور اپنے بچوں کوخود ہی دینی تعلیم دیں کیونکہ حدیقہ کیانی سو درجے ایک زانی مولوی سے بہتر ہے۔