ارسلان سدوزئی
دنیا بھی عجیب چیز ہے!
ہر کوئی اپنے آپ میں خدا ہے۔۔۔اپنے قانون اپنے دستور اپنے رواج اپنی انا اپنی تسکین لیکن کہیں نظر نہیں آئے گی تو انسانیت و ہمدردی۔۔۔خود ساختہ قوانین کی نوعیت چیک کرو زرا
کوئی عُرس کا لنگر نہیں کھاتا تو کوئی محرم کی نیاز کسی کا اسلام میلاد کا تبرک نہ کھانے میں زندہ ہے لیکن ایک چیز بڑا حق جِتا کے کھاتا ہے یہ انسان وہ ہے دوسرے انسان کا حق۔۔۔
اپنے فائدے اپنی انا کی تسکین کے لیے دوسرے کی جذبات ،خوشی سے کھیل جانا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے،کیونکہ ہم اس دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں انسانیت اور عزت و تقریم کا معیار صرف ہماری جہالت طے کرتی ہے ،مثلا جو جتنا بڑا بے ایمان وہ اُتنا بڑا سیاست دان۔۔۔۔۔
جو جتنا بڑا ٹھگ وہ اتنا بڑا رئیل اسٹیٹ کا نام،اسلام کو اپنے حساب (فائدے) کے کیے استعمال کرنے والا ،سب سے بڑا ملا،ٹائم شارٹ کر کے بھاگنے والا سرکاری ملازم جب اپنی کہانی فخر سے سناتا ہے تو ساتھ بیٹھے بندوں کی آنکھیں رشک سے پتھرا سی جاتی ہیں کہ یار ایسی موج والی نوکری ہماری کیوں نہیں۔۔۔۔
ہمارے معاشرتی قوانین کو دیکھ کے جنگل کا قانون بھی شرما جائے،لیکن ان قوانین کو پرواں چڑھانے میں ہمارا اپنا ہاتھ جیسے اچھا پیر ہونے کے لیے مرید کا جاہل ہونا فروری۔۔۔ بدلاو لانے کے لیے ہم سارا دن تقریر جھاڑیں گے لیکن یقین مانیے ہم برائی کو روکنا تو دور اپنے حق کے لیے بھی آواز بلند نہیں کر سکتے۔۔۔۔
کبھی کبھی تو بندہ یہ سوچنے پے مجبور ہو جاتا ہے دنیا قائم کیسے؟کیونکہ نیچر کے قوانین سے لے کے اللہ کے بنائے قوانین اور ملکی قوانین تو ہم نے اپنے حساب سے مولڈ کیے ہوئے ہیں۔۔۔
پھر خود ہی بندہ اپنے سوال کا جواب تراش رہا ہوتا ہے کہ یہ کرو گے تو پھر بچیوں کے ساتھ زناہ ،اسلامک سمبل مدرسہ کا مولوی ماشاللہ ایسا کام کرے گا کہ لکھتے بھی شرم آئے،نور مقدم ٹائپ کیس،دن دہیاڑے قتل کی وارداتیں تو ہوں گی۔۔۔
لہذا کوشش کریں کہ اللہ کے بنائے قوانین کو تو چھیڑنے کا سوچیں ہی نہ ساتھ ہی نیچراور ریاستی قوانین کی پاسداری بھی کر ہی لیں ۔۔۔۔۔