ایما خان یوسفزئی
آج کل خواتین کے خلاف زیادتی کے واقعات اتنے عام ہو چکے ہیں کہ آئے دن ہمیں ان کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ یہ افسوسناک حقیقت ہمارے معاشرتی زوال اور اخلاقی پستی کی عکاسی کرتی ہے۔ حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ خواتین کے لیے کام کی جگہیں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ خواتین کو اب ہر جگہ، چاہے وہ سڑک پر ہوں، دفاتر میں یا کسی اور عوامی مقام پر، عدم تحفظ کا سامنا ہے۔
یہ ایک المیہ اور افسوسناک حقیقت ہے کہ آج کے دور میں، جب خواتین مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں، انہیں دفاتر اور کام کی جگہوں پر بھی ہراسانی اور ناانصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ افراد اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی غیر اخلاقی خواہشات کی تکمیل کے لیے خواتین کو غیر محفوظ محسوس کرواتے ہیں۔ جنسی ہراسانی سے لے کر ذہنی اور جسمانی تشدد تک، یہ لوگ ہر موقع کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی بدعنوانیوں میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ انہیں اپنی غیر اخلاقی حرکتوں پر نہ شرمندگی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ انہیں جرم تسلیم کرتے ہیں۔ یہ دوغلا پن معاشرے کی بگاڑ کی ایک علامت ہے، جس کا خاتمہ لازمی ہے۔
دفاتر میں بدانتظامی اور غیر مؤثر حکمرانی کے نتیجے میں غیر اخلاقی سرگرمیاں اور مجرمانہ افعال عام ہو چکے ہیں۔ اداروں کے اندرونی نظام کی ناکامی اور ان جرائم کو چھپانے کے لیے دی جانے والی اندرونی حمایت سے یہ مسائل مزید سنگین ہو جاتے ہیں۔ کچھ بیمار ذہنیت کے افراد سمجھتے ہیں کہ صرف جنسی زیادتی اور قتل ہی جرم ہیں، جبکہ خواتین کو جان بوجھ کر محدود کرنا، ذہنی اذیت دینا، اور ذلت آمیز سلوک کرنا قابل مواخذہ نہیں۔ اس قسم کی ذہنیت معاشرتی بگاڑ کی عکاس ہے اور اس کا فوری تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے، کچھ کمپنیاں ان جرائم کو چھپانے، گواہوں کو خریدنے، اور متاثرین کو مزید کمزور کرنے کے لیے اپنے وسائل اور اثر و رسوخ کا استعمال کرتی ہیں۔ اس عمل سے ملوث افراد کو مزید حوصلہ ملتا ہے، اور وہ اپنے غیر اخلاقی اقدامات کو جاری رکھنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ یہ صورتحال نہ صرف دفاتر کے ماحول کو زہر آلود کرتی ہے بلکہ خواتین کے لیے انصاف کے حصول کو بھی مشکل بنا دیتی ہے۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور متعلقہ اداروں کی طرف سے فوری کارروائی کا نہ ہونا متاثرین کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتا ہے، جبکہ مجرم ، کمپنی کی حمایت کی بدولت آزادانہ طور پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔
اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہمیں مؤثر اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو فوری عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ خواتین کے لیے ایک محفوظ اور باعزت کام کرنے کا ماحول فراہم کیا جا سکے۔ انصاف کی فراہمی کے اداروں کو فوری اور سخت کارروائی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس جدوجہد میں اداروں کے اندرونی نظام کو شفاف بنانا، قانون کا سخت نفاذ، اور خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا شامل ہے۔ انصاف کے حصول کے لیے مسلسل اور مستقل جدوجہد ہی وہ راستہ ہے جو ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو بہتر بنا سکتا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم بحیثیت معاشرہ اپنی سوچ اور رویے کو بدلیں۔ عزت، غیرت اور احترام کا مفہوم صرف اپنے خاندان یا قریب کے لوگوں تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہر عورت اور ہر انسان کے لیے ہونا چاہیے۔ جب تک ہم اس سوچ کو اپنانے میں ناکام رہیں گے، اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔
اب وقت ہے کہ ہم اپنی اجتماعی ذمہ داری کو سمجھیں اور ایسے قوانین اور اقدار کو فروغ دیں جو خواتین کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ ہمیں اس معاشرتی بیماری کے خلاف مضبوط اقدام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور باعزت ماحول فراہم کیا جا سکے۔ صرف سخت قوانین ہی نہیں، بلکہ تعلیم، تربیت، اور شعور کی بیداری بھی ضروری ہے تاکہ ہم ایک بہتر اور محفوظ معاشرہ بنا سکیں جہاں ہر عورت اور ہر انسان محفوظ اور محترم ہو۔