انتخابات میں ہمارا مقابلہ جمہوریت مخالف قوتوں، ٹی ٹی پی اور متشدد مولویوں سے ہوگا،ایمل ولی خان

عوا می نیشنل پارٹی( اے این پی) خیبر پختونخوا کے صدر ایمل ولی خان نے کہا ہےکہ انتخابات کے دوران ہمار ا مقابلہ پہلے جمہوریت مخالف قوتوں پھرتحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)اور آخر میں متشدد فورسز یعنی مولویوں کے ساتھ ہوگا.

نجی ٹی وی کو انٹر ویو میں اظہار خیال کرتے ہوئے ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ گفتگو کرتے ہوئےایمل ولی خان نے کہا کہ انتخابات میں یقیناً ہماری سرگرمیاں بڑھیں گی لیکن بدقسمتی سے طالبان کی بھی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔سیکیورٹی کے حالات خراب ضرور ہیں لیکن اس سے زیادہ خراب صورتحال میں انتخابات ہوچکے ہیں اس لیے سیکیورٹی کا بہانہ نہیں بنایا جا سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے، اس سے ملک مستحکم ہوگا لیکن اتنا ضرور ہے کہ انتخابات پاکستان میں استحکام لانے کا واحد حل نہیں ہے ملک کے استحکام کے لیے مزید کام کرنے ہوں گے۔

صوبائی صدر اے این پی کا کہنا تھاکہ عمران خان فرعون ہیں ان پر مزید سختی ہونی چاہیے ۔عمران خان کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو ہم جانتے ہیں اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا جبکہ عمران خان کو جیل میں پانچ کمرے ، دیسی گھی، دیسی مرغے دیئے جارہے ہیں۔عمران خان جمہوری ہیں نہ ان کی پارٹی جمہوریت پسند ہے بدقسمتی سے وہ تو سائیڈ پر ہوچکے ہیں لیکن پراسیس پورا وہی چل رہا ہے لہٰذا اس پراسیس کا بھی مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔نو مئی کو جو انہوں نے کیا ہے اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں ایمل ولی کا کہنا تھا کہ لوگ پریس کانفرنس کرتے ہیں اور چھوٹ جاتے ہیں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔جو عمران خان کو لایا ہے اس کو بھی سزا ملنی چاہئے یہ صرف جنرل فیض نے نہیں کیا جنرل باجوہ کا نام لوں تو صرف انہوں نے بھی نہیں کیا یہ تو پاشا صاحب سے شروع ہوا ہے تب مزا آئے گا جب ان کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔ جب ایسا ہوجائے گا تو نہ نوازشریف یہ دعویٰ کرے گا کہ میں وزیراعظم بننے والا ہوں نہ ہی پرویز خٹک کہے گا کہ میں وزیراعلیٰ بنوں گا پھر عوام فیصلہ کرے گی۔

انہوں نے کہاکہ ہمارا مقابلہ پختونخوا میں تحریک انصاف سے نہیں ہے ہمارا مقابلہ انہی سے ہے جن سے ساری زندگی مقابلہ کرتے رہے ہیں یعنی کہ اینٹی جمہوری فورسز وغیرہ سے ہوگا پھر ہمارا مقابلہ میدان میں ٹی ٹی پی کے ساتھ ہے اور پھرہمارا مقابلہ متشدد فورسز مولویوں کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہوگا۔

ایمل ولی خان نے مزید کہا کہ ہم تو 47 سے فریا د کر رہے ہیں لیول پلیئنگ فیلڈ کی جو حالات ہیں لیول پلئینگ فیلڈ کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔جو حالات ہیں ہم 2018 کے انتخابات کو بھول جائیں گے ۔

انہوں‌نے کہاکہ جب رجیم چینج ہورہا تھا تو جنرل باجوہ نےکور کمانڈر کانفرنس کی تھی جس میں کہا گیا کہ اب ہم نیوٹرل ہیں اور انہوں نے یہ وضاحت کی تھی کہ جنہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے آنے والے پندرہ بیس سال آرمی میں لیڈ کریں گے اور نیوٹرل رہیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے نیوٹرل کا لفظ کچھ دن چلا اور نو مئی نے ا س نیوٹرل لفظ کو دفن کر دیا گیا ۔ آج وہ نیوٹریلٹی نہیں دیکھ رہی ہے۔

ایمل ولی نے انتخابات کے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ نوازشریف پاکستان کس طرح آئے اور آگے کیا ہوگا۔ سننے میں یہی آرہا ہے کہ نوازشریف سے معاہدہ ہوا ہے کہ وہ وزیراعظم بنیں گے۔ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے پہلی دفعہ نہیں ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ طے ہوچکا ہے کہ اقتدار اس دفعہ مسلم لیگ نون کو دیا جائے گا۔جس شخص کو سیف ہاؤس میں چار گھنٹے بٹھایا گیا اس کا دعویٰ ہے کہ اگلی دفعہ وہ پختونخوا کا وزیراعلیٰ ہوگا۔

ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جن 102 لوگوں کو رہا کیا گیا تھا ان کو کس لیے رہا کیا گیا تھاآج ہر پارٹی کو تھریٹ ہے۔میں تو بات کر لیتا ہوں جے یو آئی کی مجبوری ہے وہ بات بھی نہیں کرسکتے۔ فری اینڈ فیئر انتخابات کا اس وقت تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن ہم میدان نہیں چھوڑ سکتے۔ پختونخوا میں پچھلی نگراں حکومت رجیم ہماری تھی ۔اب نگراں حکومت میں چنے ہوئے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جو لاڈلے ہیں پیارے ہیں اور گھوم گھوم کر کہہ رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ بنوں گا۔

گورنرخیبرپختونخوا سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھاکہ گورنر ہاؤس کا تقدس ہے اس کو عوامی نہیں بنانا چاہیے گورنر ہائوس کا جو کام ہے اس پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔گورنری پر جو فائز ہیں میں ان کی تبدیلی چاہتا ہوں ان کی حمایت غلطی سے کی جس کی میں معافی مانگ چکا ہوں۔ہماری اتحاد کی بات چیت نہیں ہو رہی ہے ہمارا جو صوبائی کونسل اجلاس ہوا تھا اس میں صوبائی کونسل نے مجھ پر قدغن لگائی کہ ہم صوبائی سطح پر اتحاد نہیں کریں گے ڈسٹرکٹ میں کہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی تو وہ دیکھیں گے۔

افغانستان کی عبوری حکومت سے تعلقات کے سوال پر ایمل ولی خان کا کہنا تھاکہ افغانستان میں جو لوگ ہیں وہ بندوق کی زور پر آئے ہیں عوام کے چنے ہوئے نہیں ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے جو حالات ہیں یہ پاکستانیوں کی غلط حساب کتاب کی وجہ سے چل رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے تھا کھلے عام وہاں کے ایلکٹڈ لوگوں کی سپورٹ کرتے نہ کہ ان لوگوں کی کرتے جنہوں نے بندوق کے زور پر حکومت بنا رکھی ہے۔

انہوں‌نے کہاکہ ٹی ٹی اے اور ٹی ٹی پی ایک ہیں جب وہ افغانستان میں ہوتے ہیں تو ٹی ٹی اے کہلاتے ہیں اور پاکستان میں ہوتے ہیں تو ٹی ٹی پی ہوتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ ادھر نہیں ہیں یا اُدھر نہیں ہیں دونوں جگہ موجود ہیں۔ٹی ٹی پی سے متعلق پاکستان میں پالیسز کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ٹی ٹی پی کے سہولت کاروں کو کچھ نہیں کہا جاتا ماضی کی باتیں رہنے بھی دیں اس دفعہ تو ہم جانتے ہیں کہ ایک سو دو لوگوں کو کس نے رہا کیا۔ عمران خان مفاہمت کا کہتے تھے ۔ چالیس ہزار فائٹرز جس میں دس ہزار فائٹرز ہیں وہ پاکستان کے لیے آئے ہیں کون لے کر آیا ہے ان لوگوں سے جس دن پوچھا جائے گا جنرل باجوہ، جنرل فیض، عمران خان،صدر عارف علوی، محمود خان، بیرسٹر سیف ان سے جب تک نہیں پوچھا جائے گا تب تک میں نہیں سمجھتا کہ یہ ملک سنجیدہ ہے اس مسئلے کو حل کرنے میں ۔

ایمل ولی کا کہنا تھاکہ افغانستان میں کوئی حکومت نہیں ہے قبضہ گروپ ہے۔ جس جس نے طالبان کی وکالت کی ترجمانی کی دیکھیں پنجاب آرام سے بیٹھا ہے مر ہم رہے ہیں دربدر ہم ہیں۔ ہمیں قطع تعلق کرنے کی ضرورت ہے۔غیر قانونی طو رپر تو کسی کو بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ہمارے ملک میں آئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چمن اور انگور اڈا میں جو دھرنے جاری ہیں اس کا کوئی حل نکالنا چاہیے ان کے بھی جائز مطالبات ہیں آئین کو مد نظر رکھتے ہوئے راستے نکالنے کی ضرورت ہے۔