کب تک’سوفٹ ویئر اپ ڈیٹ‘کرتے رہیں گے؟

بلال غوری

راولپنڈی میں موجود سب سے بڑی تجربہ گاہ میں نہایت جدید قسم کے جو روبوٹ تیار کیے گئے تھے، سرکش ہوجانے کے بعدان کا ”سوفٹ ویئر“اپ ڈیٹ کرنے کا کام بہت تیزی سے جاری ہے۔ بعض ایسے روبوٹ جن کا سسٹم کرپٹ ہوچکا ہے اور ”سوفٹ ویئر“ اپ ڈیٹ کرنے کی گنجائش نہیں رہی،انہیں تلف کیا جارہا ہے۔

ویسے آپ نے روبوٹ کا نام تو سنا ہو گا؟ سائنسی ارتقا کے نتیجے میں مشینی دور کا آغاز ہوا تو روبوٹ سازی کے منصوبے پر کام ہونے لگا، ایسی خودکار مشینیں تیار کرنے کی کوششیں کی جانے لگیں جن میں ایک بار پروگرام فیڈ کر دیا جائے تو وہ غلطی یا وقفہ کیے بغیر کام کرتی رہیں۔ ایسی خودکار مشینوں کے لیے”روبوٹ“ کی اصطلاح پہلی بار بیسویں صدی میں جمہوریہ چیک کے ایک مصنف نے اپنے ڈرامے میں استعمال کی مگر اس مہم جوئی کا آغاز درحقیقت بہت پہلے ہو چکا تھا۔

قدیم یونان میں اس حوالے سے جو کوشش کی گئی، اسے روبوٹ سازی کے ابتدائی منصوبوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ ایک یونانی سائنسدان نے مشینی کبوتر بنایا۔ روم کی سلطنت سے جو باقیات برآمد ہوئیں ان میں بھی مکینیکل روبوٹس کے آثار ملتے ہیں۔ 13ویں صدی کے مسلمان سائنسدان الجزری نے اس کام کو آگے بڑھایا اورخودکار مور بنایا۔ فلش سسٹم اور خودکار دروازوں کا ابتدائی خیال بھی اسی نے پیش کیا۔

15ویں صدی میں لیونارڈوڈاونچی نے اس تحقیق کا رُخ مصنوعی سپاہی بنانے کی طرف موڑدیا۔ انسان روبوٹ سازی میں جس قدر پیشرفت کرچکا ہے اس کے پیش نظر بہت وثوق سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ہم ایک انقلاب کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ پوری دنیا میں روبوٹ سازی کے حوالے سے کام ہورہا ہے۔

مثال کے طور پرجاپان کے ایک 400 سال پرانے بدھ مندر میں راہب کی جگہ ”ایمان“ نامی روبوٹ لے چکا ہے۔ روسی خلائی ایجنسی چند ماہ قبل ”فیدو“ نامی روبوٹ کو بطور خلاباز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر بھیج چکی ہے۔ چین میں کئی روبوٹ اینکر ٹی وی پر خبریں پڑھتے ہیں تو انسان اور روبوٹ میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

انڈسٹریل روبوٹ، کارخانوں اور فیکٹریوں میں انسانوں کی جگہ لے چکے ہیں۔ ایجوکیشنل روبوٹ تعلیمی اداروں میں معلم کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ جنگ کی صورت میں فوجی روبوٹس کو لڑنے کی تربیت دی جاچکی ہے اور ہر وہ کام جو آپ سوچ سکتے ہیں، روبوٹ سے لیا جا سکتا ہے۔

روبوٹس کے بڑھتے ہوئے عمل دخل کے پیش نظر ہالی وڈ ہی نہیں بالی وڈ میں بھی سائنس فکشن پر مبنی بے شمار فلمیں بنیں جن میں رجنی کانت کی فلم ”روبوٹ“ نمایاں ہے۔ فوج میں بھرتی کرنے کے لیے”چٹی“ نامی ایک روبوٹ تیار کیاجاتا ہے جسے چنائی میں ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران ٹرائل کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ روبوٹ تیار کرنے والے سائنسدان کے گُرو کی نیت خراب ہو جاتی ہے کیونکہ وہ دہشتگردوں کے لیے اسی طرز کا روبوٹ تیار کرنے کا سوچ رہا ہے مگر اس مقصد میں ناکام رہتا ہے۔

”چٹی“ کو کانفرنس میں فیل کردیا جاتا ہے اور پھر وہی گرو اسے چرا لے جاتا ہے۔ ”چٹی“ بغاوت پر اترتا ہے اور اپنی روبوٹ فورس تیار کرکے پورے شہر پر دھاوا بول دیتا ہے۔ اسی طرح شاہ رخ خان کی فلم ”راون“ میں گیمز پروگرام کرنے والے شرما ایک ایسی ٹیکنالوجی متعارف کرواتے ہیں جس کے ذریعے ڈیجیٹل دنیا کے کردار حقیقی دنیا میں داخل ہو سکتے ہیں۔

وہ دو گیمنگ کردار ”جی ون“ اور ”راون“ تخلیق کرتے ہیں اور انہیں مصنوعی ذہانت سے لیس کر دیا جاتا ہے مگر یہ بغاوت پر اتر آتے ہیں اورخوب اُدھم مچا تے ہیں۔ روبوٹس کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کہیں یہ خودکار روبوٹ دنیا بھر کے انسانوں کو بے روزگار نہ کر دیں۔

سائنس فکشن پر یقین رکھنے والے ان اندیشہ ہائے دور دراز میں بھی مبتلا ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال سے بنائے گئے روبوٹ کہیں اس قدر طاقتور اور بااختیار نہ ہو جائیں کہ اپنے بنانے والوں کے خلاف ہی بغاوت کردیں ایسی صورت میں انسان کے لیے روبوٹ کا مقابلہ کرنا ناممکن ہوگا اور یہ پوری دنیا کو بہ آسانی یرغمال بنا سکتے ہیں۔

یوں تو پاکستان سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اقوام عالم سے بہت پیچھے ہے مگر روبوٹ بنانے اور انہیں اپنے اشاروں پر نچانے کے حوالے سے ہمارے ہاں ناقابلِ یقین ترقی ہوئی ہے۔ کبھی ہمارے ہاں بھی روبوٹ کا محض اتنا استعمال ہوتا تھا کہ کسان لکڑی کو قمیص پہنا کر پتلے کی شکل میں گاڑ دیا کرتے تھے تاکہ پرندے یہی سمجھیں کہ کسان اپنے کھیت کی حفاظت کے لیے چوکس کھڑا ہے لیکن اب تو ہر شعبہ ہائے زندگی میں روبوٹ کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ طے کرنا دشوار ہوگیا ہے کہ کون انسان ہے اور کون روبوٹ۔

ہمارے ہاں روبوٹ سازی کی صنعت کو یہ چیلنج شروع سے ہی درپیش رہا کہ روبوٹ میں کتنا ہی اچھا پروگرام فیڈ کیوں نہ کردیا جائے، کچھ عرصہ بعد اس میں جان پڑ جاتی ہے اور یہ بغاوت پر اتر آتا ہے۔ ایسی صورت میں انجینئر روبوٹ کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کر دیا کرتے ہیں یا پھر اس کی تمام شکتی واپس لے کر غیر موثر کر دیتے ہیں۔

چند برس قبل ایک شاہکار روبوٹ بنایا گیا جس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ اب تک کا سب سے بہترین اور جدید خصوصیات کا حامل ایسا روبوٹ ہے جو نقش کہن بدل کر انقلاب برپا کردے گا۔ یہ روبوٹ اس قدر دلکش تھا کہ اس کے خالق بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ بہر حال، حسبِ سابق کچھ عرصہ بعد اس روبوٹ نے مزاحمت شروع کردی۔

کئی بار اس کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن چونکہ یہ ففتھ جنریشن کا نہایت جدید روبوٹ ہے، اس لئے کنٹرول کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ اب اس روبوٹ کو اس کی طاقت سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہمیں معلوم ہے، کسی روبوٹ میں پروگرامنگ فیڈ کرکے اسے ہمیشہ کیلئے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا، ماضی میں کئی روبوٹ آپے سے باہر ہونے کے بعد تباہی مچا چکے ہیں، تو اس قدر خطرناک روبوٹ کیوں بنایا گیا؟

اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ روبوٹ سازی کی اس لیبارٹری کو بند کیوں نہیں کردیا جاتا؟ کب تک ”سوفٹ ویئر اپ ڈیٹ“کرتے رہیں گے؟ قائداعظم نے تو نجانے کس تناظر میں پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کی بات کی تھی مگر ہم نے تو اس ملک کو سچ مچ لیبارٹری میں تبدیل کردیا ہے۔
یہ تحریر پہلے وی نیوز پر شائع ہوچکی ہے.