فیکٹ چیک: کیا واقعی مولانا فضل الرحمان کی گاڑی یا قافلے پر ڈیرہ اسماعیل خان میں حملہ ہوا؟

خان زیب محسود
آج پاکستان میں نیوز چینلز اور نیوز ویب سائیٹس سمیت سوشل میڈیا پرڈیرہ اسماعیل خان کے تھانہ یارک کی حدود میں جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے قافلے پر دو اطراف سے حملے کی خبر پھیل گئی۔

جے یو آئی کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ نے بھی واقعے سے متعلق تصدیقی بیان جاری کیا ۔بیان میں کہا گیا کہ سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان کے قافلے کے قریب فائرنگ بزدلانہ کاروائی ہے ۔مذید کہا گیا کہ بارہا متنبہ کرچکے ہیں کہ ہماری قیادت کے لئے حالات سازگار نہیں ۔


دوسری جانب نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے مطابق ترجمان جے یو آئی جلیل جان نے بتایا کہ حملہ تھانہ یارک کی حدود میں کیا گیا، تاہم حملے میں مولانافضل الرحمان اور ان کے محافظ محفوظ رہے۔


واقعے سے متعلق ڈیرہ اسماعیل خان کے سینئر صحافی سعید اللہ مروت کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان پر کوئی حملہ نہیں ہوا اور نہ فائرنگ کے وقت مولانا فضل الرحمان وہاں گاڑی میں موجود تھے ۔

وہ سوشل میڈیا پر پوسٹ میں‌بتاتے ہیں کہ واقعہ کی وضاحت کرتے ہوئے آر پی او ناصر محمود ستی نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمن گاڑی میں موجود نہیں تھے۔ گاڑی وہاں پیٹرول ڈلوانے ائی تھی ۔ فائرنگ کے واقعہ کا مولانا فضل الرحمن سے کوئی تعلق نہیں۔ فائرنگ ٹول پلازہ کی سمت کی جا رہی تھے۔

سعید اللہ مروت مذید لکھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا عبیدالرحمان نے اس واقعہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فائرنگ کے وقت مولانا فضل الرحمان گھر پر تھے۔ مولانا کی گاڑی یارک انٹرچینج کے قریب پیٹرول کیلئے رکی تھی ۔

انہوں نے کہا کہ اس فائرنگ کے واقعہ کے بارے میں زرائع نے بتایا کہ جس وقت مولانا فضل الرحمن کی گاڑی یارک انٹرچینج کے قریب تھی اس وقت پہلے سے نامعلوم افراد اور ٹول پلازہ کے گارڈز کے درمیان فائرنگ ہورہی تھے ۔ فائرنگ کا مولانا فضل الرحمان کی گاڑی سے کوئی کوئی تعلق نہیں تھا۔