کرم میں‌جھڑپیں‌جاری، جاں‌بحق افراد کی تعداد 35 ہوگئی،155 زخمی

رشید خان
خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں دو قبائل کے درمیان جائیداد کے تنازعے سے شروع ہونے والی لڑائی ضلع کے مختلف علاقوں پھیل گئی ہے جس میں‌دونوں فریقین کے 35 افراد جانبحق 166زخمی ہوگئے.

ضلعی انتظامیہ پولیس اور ہسپتال زرائع کےمطابق پانچ مقامات پر مسلح جھڑپوں میں قبائل ایک دوسرے کے خلاف بھاری ہتھیاروں کا استعمال کررہے ہیں جبکہ پاراچناراور صدہ کو بھی میزائلوں و راکٹوں سے نشانہ بنایا جارہا ہے .

پانچ روز قبل بوشہرہ کے مدگی کلی اور مالی خیل قبیلے کے مابین اراضی کے تنازعے پر مسلح لڑائی شروع ہوئی جو کہ فرقہ ورانہ شکل اختیار کرگئی اور ضلع کے دیگر جس میں میں پیواڑ ، تنگی ؛ بالشخیل ،خار کلے ،صدہ ،سنگینہ ؛ مقبل ؛کنج علی زئی اور پاڑہ چمکنی کڑمان شامل ہیں جھڑپیں‌شروع ہیں.

دونوں اطراف سے بھاری اور خودکار ہتھیاروں کا استعمال کیا جارہا ہےجس میں اب تک 35 افراد جانبحق 166 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں.

فائرنگ کے ان واقعات اور کشیدہ صورتحال کے باعث مین شاہراہ آمدورفت کےلئے بند ہے اور شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے. پاراچنار شہر اور صدہ بازار کو بھی میزائلوں اور راکٹوں سے نشانہ بنایا جاریاہے.

ڈپٹی کمشنر جاویداللہ محسود کا کہنا ہے کہ فائربندی کے لئے ہنگواور اورکزئی سے امن جرگہ ممبران نے علاقے میں پہنچ کر فریقین کے عمائیدین سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں اور فریقین کے عمائیدین فائرنگ بندی پر متفق ہوگئے ہیں .

انہوں‌نے کہاکہ ضلعی انتظامیہ اور فورسز کے ہمراہ جرگہ ممبران فریقین کے مسلح افراد کو مورچوں سے ہٹائینگے اور وہاں پولیس و فورسز کے اہلکار تعینات کئے جائینگے.

ممبر قومی اسمبلی انجنیئر حمید حسین ،سابق وفاقی وزیر ساجد طوری اور ممبر صوبائی اسمبلی علی ہادی عرفانی نے خونریز جھڑپوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ضلع کرم میں پانی راستوں جنگل اور زمین کی ملکیت کے تنازعات پر بار بار معمولی فائرنگ کے واقعات سے ضلع بھر میں جھڑپیں شروع ہوجاتی ہیں اور اس طرح خونریزی کا سبب بن رہی ہیں جو کہ افسوسناک ہیں.

دونوں رہنماؤں نے فریقین سے فوری جنگ بندی کی اپیل کی اور کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور دیگرادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور بدامنی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے.

پارلمینٹیرنز کا کہنا ہے کہ ذمہ دار حکام حل طلب عوامی مسائل کے حل پر توجہ دیں تاکہ بار بار اس قسم حالات کا سامنا نہ ہو .

جھڑپوں کے باعث پاراچنار کا دوسرے علاقوں سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے. آمد و رفت کے راستے بند ہونے کے باعث اشیاء خوردونوش کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور ہسپتالوں میں ادویات ناپید ہوگئی ہے جبکہ تعلیمی اداروں کی بندش سے طلبہ کی قیمتی وقت ضائع ہو رہے ہیں .

دریں اثنا ضلع کرم میں جاری فسادات کو روکوانے کیلئے مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا پاراچنار اور اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جس میں حکومت سے فوری طور جھڑپیں روکوانے اورقیام امن کیلئے فوری اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کررہے ہیں.