برقع پوش طالبہ اور پروگریسیو پشتونوں کی سینہ کوبی

علی ارقم

پشتون خطہ اپنی قبائلی ساخت و روایات اور پھر مذہبی قدامت پسندی کے اختلاط کے نتیجے میں بننے والے ملغوبے اور پچھلی دو تین دہائیوں سے ریاست پاکستان کی سٹریٹجک سمر سالٹس کیلئے پسندیدہ اکھاڑہ ٹھہرنے کے باعث عجیب طرح کے تضادات کا عکس ہے.

حالیہ مثال میٹرک کے امتحانات میں پوزیشن حاصل کرنے والی پشتون بچیوں کے برقعوں پر معترض پشتون دوستوں کی ہے، جن کا مسئلہ دراصل ویژولز اور آپٹکس ہیں، تصویر نہ بنتی، سوشل میڈیا پر نہ آتی، ہائے ہائے نہ ہوتی، مین اسٹریم پاکستان کے واہیات قسم کی سٹیرہو ٹائپس پر مبنی تبصرے نہ پڑھنے پڑتے تو انہیں شاید ہی کوئی مسئلہ ہوتا.

جہاں تک دیگر لوگوں کا مسئلہ ہے ان کیلئے عرض ہے کہ پشتون معاشرہ اتنا ہی معاشی و سماجی طبقات میں بٹا ہوا ہے جتنا کہ وفاق پاکستان میں محبوس دیگر قوموں کا سماج ہے. ویسے ہی ان میں فکری و عملی تقسیم بھی اتنی ہی گہری ہے.

پاکستان کی جغرافیائی حد بندی میں گھری ان تمام قوموں کے ورکنگ کلاس گھرانے ایک ہی طرح کی مشکلات سے دوچار ہیں جبکہ لوئر مڈل کلاس طبقے کے فکری اور عملی رجحانات بھی ایک سے اور کلچرل پریکٹسز بھی ایک سی ہیں، جوکہ مین اسٹریم پاکستان کے ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی لائف کی نقالی ہے. لیکن جب یہ لوگ ان خیالات کی جگالی بھی شروع کر دیتے ہیں جو اسی کلاس کے لوگ افورڈ کرسکتے ہیں تو بہت ہی مضحکہ خیز صورتحال بنتی ہے. بقول مارکس پاؤں کیچڑ میں دھنسے ہیں اور دماغ آسمان پر ہے.

نازش بروہی جو کہ معروف سوشل سائنٹسٹ ہیں اور کئی حوالوں سے میرے لئے فکری استاد کا درجہ رکھتی ہیں انہوں نے سیاسی تشدد کے نتیجے میں عورتوں پر ہونے والے اثرات کے حوالے سے ایک نشست میں کہا تھا کہ انہوں نے نوٹ کیا ہے کہ جب کراچی کی پپریفریز میں تشدد کے نتیجے میں خاندان ہجرت پر مجبور ہوئے تو ان کی خواتین (بلوچ اور کچھی) جو اپنی پرانی آبادیوں میں کھلی ڈھلی چادر لیتی تھیں، انہوں نے نئی جگہوں اور نئے علاقوں میں آکر برقعے اوڑھنا اور پردہ کرنا شروع کردیا.

اس رجحان کی وضاحت کرتے ہوئے نازش بروہی نے کہا کہ دراصل اپنے علاقوں میں مانوسیت اور جانے پہچانے چہروں کے اردگرد ہونے کے باعث تحفظ کا احساس ہوتا ہے، لیکن جیسے ہی گرد وپیش تبدیل ہوئے وہ احساس جاتا رہا اور اس کی جگہ خوف و خدشات نے لے لی.

اس لئے عرض ہے کہ اپنی شدید قسم کی مردانگی کے ساتھ ردعمل کی نفسیات میں معذرت خواہانہ رویہ اپنانے، سینہ کوبی کرنے کے بجائے ان سماجی عوامل کو سمجھنے کی کوشش کریں جن کا ہمارا معاشرہ شکار چلا آرہا ہے.

ہماری بیٹیاں اول آئی ہیں، ایک کامیابی ملی ہے، ایک سنگ میل طے کیا ہے، اسے سیلبریٹ کرلیں، ہر وقت فیس بک پر قمیص پھاڑ کر سینہ کوبی نہ شروع کر دیا کریں.

رہ گئی مین سٹرہم پاکستان کی ستم ظریفی، ان کا ایک ہی لینس ہے وہ نہیں بدل سکتا. اس لیے ان کا کیا کرنا ہے، بلوچوں سے سیکھیں.

ایک بلوچ دوست نے ایک بار بلوچ سوشل میڈیا کی درجہ بندی کرتے ہوئے لکھا تھا، “ایک وہ ہیں جو مین اسٹرہم پاکستان کو بڑی رسان سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بلوچی لوگ کہنا یا لکھنا غلط ہے، بلوچ لوگ اور بلوچی زبان ہوتی ہے”

آپ بھی درجہ بندی کرلیں کہ کس نے مین اسٹرہم پاکستان کی سکولنگ کرنی ہے اور کس نے سینہ کوبی کرنی ہے، کس نے حرمت علی شاہ کی طرح چیزوں کا سیاق و سباق سمجھنے کی کوشش کرنی ہے.