(محمد زبیر کےکے)
میں نہیں جانتا کہ معروف فلسفی سقراط نے یہ کیوں کہا ہے کہ ”میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا“ مگر میں یہ یقین کے ساتھ کہہ رہا ہو کہ ہم جانتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتے، میرا مطلب یہاں پر ہم سے سابقہ قبائلی اضلاع کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ جب تعلیم یافتہ طبقہ اس صورت حال میں رہتے ہیں تو ناخواندہ کس حال میں ہوں گے۔ حال بدحالی والی بات ہے۔
میں شعبہ نفسیات سے وابستہ ہوں، مختلف حالات، واقعات، جنگیں، غربت، قبائلیت کی وجہ سے یہاں پر ہر عام و خاص ذہنی صحت کے لحاظ سے بیمار ہو چکا ہے، ہم اس کیفیت سے کیسے نکلیں گے؟ کسی کے پاس جواب نہیں ہے۔ چلیں، کیوں اور کیسے سے باہر آجاتے ہیں، یونانی فلسفہ کو دفع کرتے ہیں، آئیں اپنی قسمت سے گلے شکوے کرتے ہیں کہ ہم قبائل بدقسمت لوگ ہیں، ہم سائنس، جدید دنیاوی علوم، ٹیکنالوجیز کو نہیں مانتے، ہم سائنسی اصول پر تحقیقات نہیں کرتے، جو اقوام اس طرح کرتے ہیں ہم کچھ کیے بغیر خود کو ان سے افضل سمجھتے ہیں۔
یقیناً اس وقت قاری سمجھے گا کہ قبائل تو بدقسمت نہیں بلکہ خود ہی بہت سے مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ اگر قبائلی خطے کے لوگ صرف بہتر تعلیم و تربیت پر کام کریں تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہو کہ ان کے آنے والے نسلیں خوش قسمت ہوں گی۔
اگر تحقیقی بنیاد پر میں کچھ لکھنے کی کوشش کرو تو فی الحال وہی بدقسمتی اور مایوسی والی باتیں ہیں۔ اپر اور لوئر وزیرستان میں ایک تعلیمی سروے کے ساتھ گروپ میں کام کر رہا ہوں، مجھے ایسی استانی یا استاد نہ ملا جو سیکھنے کی بیماریاں جانتے ہوں، جو مجھے بچوں کی نفسیاتی بیماریاں بتائیں۔
جب ہم کسی مسئلے کی تشخیص ہی نہیں کر سکتے تو اس کا حل ضرور بدقسمتی اور دیگر بے منطقی باتوں میں تلاش کریں گے جو اس کا نہ حل ہے نہ فائدہ۔ ہم اپ ڈیٹ ہونے سے ڈرتے ہیں، جدید علمی طریقہ کار پر ہنستے ہیں۔ استاد لاٹھی اور سزا کو حل مانتے ہیں، جزا تو ہے ہی نہیں۔
یہی حال ہر کسی کا ہے صرف تعلیمی اداروں کا نہیں مگر تعلیمی ادارے ہی ہم کو باحیثیت قوم تبدیل کر سکتے ہیں۔ ایک دن معروف سکالر سدھ گرو کو سن رہا تھا کہ آپ ایک ہوٹل والے کے ساتھ بیٹھیں وہ آپ کو بتائے گا کہ فلاں کرکٹ بلے باز کو اس طرح سے کھیلنا چاہیے، فلاں وزیراعظم کو اس طرح اقدامات اٹھانے چاہیے، فلاں صدر کو یہ کام نہیں کرنا چاہیے تھا، اس ہوٹل والے کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہوتا ہے مگر جس کام کی ذمہ داری اس کے پاس ہے یعنی بہتر چائے بنانا وہ بالکل نہیں جانتا۔ یہی حال ہمارے تعلیم یافتہ قبائلی طبقے کے اجتماعی نفسیات میں واضح ہے۔
ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا بلکہ موجودہ دور کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ قبائلیت میں بدلاؤ نہ آ جائے، دنیا اب گلوبل ویلج ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی میں کامیاب اقوام ہی ہم پر حاوی ہو چکی ہیں۔ لہذا ہمیں بھی کچھ کرنا ہو گا، ہم مملکت خداداد کے ذمہ داران سے اپیل کرتے ہیں کہ قبائلی خطے میں بالخصوص تعلیمی اداروں میں جدید علمی تحقیق پر کام کریں۔ تمام اساتذہ اور استانیوں کو جدید معلمی کے متعلق تربیت دیں یا کم از کم ہر اسکول سے ایک ایک بندے کو جدید معلمی کی تربیت فراہم کریں۔