جنوبی وزیرستان ،انگور اڈہ بارڈر کو ’ایکسپورٹ لینڈ روٹ‘ قرار دینےکے فوائد

وفاقی کابینہ نے انگور اڈہ بارڈر کو افغانستان اور وسطی اشیائی ممالک کے لیے بطور ’ایکسپورٹ لینڈ روٹ‘ قرار دینے کی منظوری دیدی ہے۔

انگور اڈا کا علاقہ جنوبی وزیرستا ن لوئر کی تحصیل برمل پر پاک افغان سرحد واقع ہے.ماہرین معیشت کے مطابق اس فیصلے سے دونوں ممالک کی تجارت کو خاطرخواہ فائدہ ہو گا۔

قبل ازیں افغانستان اور پاکستان کے مابین ضلع خیبر میں طورخم، ضلع کرم میں خرلاچی اور شمالی وزیرستان میں غلام خان بارڈر بطور ایکسپورٹ لینڈ روٹ استعمال ہورہی ہیں.

انگور اڈہ پر افغانستان سے آنے والی اشیا کو 2020 سے پہلے ضلع ٹانک کے کسٹم سٹیشن پر وصول کیا جاتا تھا جو انگور اڈہ سے تقریبا 180 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، لیکن ستمبر 2020 میں انگور اڈہ پر کسٹم سٹیشن کی سہولت مہیا کر دی گئی۔

انگور اڈہ کسٹم سٹیشن پر بارڈر کے دونوں جانب سے درآمدات اور برآمدات کی جاتی ہیں۔ ایف بی آر کے مطابق انگور اڈہ پر سب سے زیادہ تازہ پھل اور سبزیاں، خشک میوہ جات، سکریپ اور کوئلے کی تجارت رہتی ہے۔

خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس و انڈسٹری کے نائب صدر شاہد حسین نے برطانوی نشریاتی ادارے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’انگور اڈہ کراسنگ کو ایکسپورٹ روٹ ڈیکلیئر کرنے کا مطالبہ ہمارا بہت پرانا تھا اور یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ اس کی منظوری ہو گئی۔

انہوں نے بتایا کہ ’اس بارڈر کو ایکسپورٹ روٹ ڈیکلیئر کرنے سے تو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ طورخم، غلام خان اور خرلاچی بارڈر پر لوڈ کم ہوجائے گا اور دونوں ممالک کی تجارت کو فروغ بھی ملے گا۔

’سب سے زیادہ فائدہ بارڈر کے مقامی لوگوں کو ہو گا کیونکہ مقامی آبادی میں تعلیم کا رجحان اب بڑھ گیا ہے لیکن روزگار کے مواقع بہت کم ہیں، تو اس روٹ سے مقامی آبادی کو فائدہ ملے گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’انگور اڈہ کو اس سے پہلے 2021 میں بھی ایکسپورٹ کے لیے کھول دیا گیا تھا تاہم اس وقت انگور اڈہ پر وہ مراعات موجود نہیں تھیں جو دیگر بارڈرز پر دی جاتی ہیں۔

شاہد حسین نے بتایا کہ ’ایک تو ایکسپورٹ ہوتی ہے، دوسرا اہم معاملہ ٹرانزٹ ہے، تو اگر اسی بارڈر کو وسطی ایشیائی ممالک کے لیے بطور ٹرانزٹ منظوری بھی دی گئی ہے تو یہ بھی نہایت فائدے کی بات ہے کیونکہ یہ پاکستان کی معیشت سمیت علاقائی ترقی کے لیے نیک شگون ثابت ہو گا۔‘

شاہد حسین کے مطابق اس علاقے میں بجلی اور مواصلات کا کوئی نظام موجود نہیں ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہاں پر تمام سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ اس روٹ سے جو فائدہ ملنے کی توقع ہے وہ صحیح معنوں میں مل سکے۔

ان چیلنجز کا ذکر ایف بی آر نے 2021 میں جاری شدہ ایک رپورٹ میں بھی کیا ہے،رپورٹ کے مطابق وانا اور انگور اڈہ کے درمیان سڑک بری حالت میں ہے جو زیادہ ٹریفک کے لیے موزوں نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق ’یہ علاقہ شدت پسندی سے بہت متاثر ہوا ہے اور کسٹم سٹیشن پر عملے کی مزید تربیت کی بھی ضرورت ہے تاکہ بہتر طریقے سے معاملات کو سر انجام دیا جا سکے۔‘

روڈ کے ابتر حالات کے حوالے سے وزیرستان چیمبر آف کامرس کے رکن سیف الرحمٰن نے بتایا کہ ’ابھی کراچی سے ڈیرہ اسماعیل خان، پھر ٹانک اور ٹانک سے وانا کا روٹ استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ روٹ بڑی کارگو گاڑیوں کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔‘

ان کے مطابق: ’ژوب سے وانا تک ایک مختصر روٹ ہے جس کا ہمیں بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ حکومت نے اس کو بنانے کے لیے وعدہ تو کیا ہے، لیکن ابھی تک اس پر کام شروع ہوا ہے۔ یہ روٹ وسط ایشیائی ممالک کی برآمدات کے لیے بہت فائدہ مند ہوگا۔‘