کوئٹہ:بلوچستان یونیورسٹی کے اساتذہ اور دیگر ملازمین نے مالی بحران سے نمٹنے کے لیے صوبائی دارلحکومت میں خیراتی مہم شروع کردی۔
سریاب روڈ پر یونیورسٹی ملازمین نے چندہ جمع کرنے کے لیے اپنے ہاتھوں میں ڈبے اٹھا رکھے تھے جن پر خیرات ، زکٰوۃ اور صدقات کے الفاظ تحریر کیے گئے تھے ۔
بلوچستان یونیورسٹی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے رہنماء پروفیسر کلیم اللہ بڑیچ نے غیرملکی میڈیاکو بتایاکہ انتہائی مخدوش صورتحال کی وجہ سے ملازمین سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ جامعہ بلوچستان کےاساتذہ سمیت تمام عملے کے ارکان گزشتہ تین ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ مالی بحران کی وجہ سے صوبے کی واحد بڑی درسگاہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے اساتذہ فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن بھی بند کردی گئی ہے۔ حکومت اپنے اخراجات میں کمی لانے کے بجائےتعلیمی اداروں کو تباہ کر رہی ہے۔‘
کلیم اللہ بڑیچ کا کہنا تھا کہ مالی مسائل کی وجہ سے یونیورسٹی کے مرکزی اور تمام زیلی کیمپسزکے زیر انتظام امتحانات بھی ملتوی کردیے گئے ہیں۔ ان کے بقول، ”بلوچستان کی تمام جامعات مالی بحران کا شکار ہیں۔
انہوںنے کہا کہ جامعہ بلوچستان میں ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی یقینی بنانے کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن بھی کوئی کردار ادا نہیں کررہا ہے۔ حکومتی نااہلی کی وجہ سے بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہماری یونیورسٹی کے کئی سینئیراساتذہ صوبے سے بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں۔
بلوچستان کے صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان کہتے ہیں کہ مالی بحران کے حل کے لیے وفاقی حکومت نے اقدامات نہ کیے تو صوبے کے انتظامی امور چلانا بھی مشکل ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت بلوچستان کے چھ سو ارب روپے کے سالانہ بجٹ میں سے تین سو اسی ارب روپے تنخواہوں ، پنشن اور دیگر غیرسرکاری اخراجات پر صرف ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا،ایک سو بانوے ارب روپے صوبے کا ترقیاتی بجٹ ہے۔ صوبائی بجٹ پہلے ہی اسی ارب روپے خسارے کا شکار تھا۔ حالیہ سیلاب نے صوبے کا انفراسٹرکچر بھی تباہ کرکے رکھ دیا۔ ہم نے محدود وسائل میں سیلاب زدگان کی مدد کی ۔ اس بحرانی صورتحال میں وفاق کی سطح پر ہمیں مطلوبہ مالی معاونت نہیں مل رہی ہے۔‘‘
زمرک خان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت بلوچستان کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت مطلوبہ رقم بھی فراہم نہیں کر رہی ہے اسی لیے مالی بحران شدت اختیار کرگیا ہے۔
انہوں نے مذید کہا، ”وفاقی حکومت نیشنل فنانس کمیشن ( این ایف سی ) کے بلوچستان کے لیے مختص حصے میں مسلسل کٹوٹی کر رہی ہے۔ بلوچستان کو اپنے حصے سے گیارہ ارب روپے اور رواں مالی سال میں اب تک ستائیس سے تیس ارب روپے کم ملے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے صوبے کے مالی حالات دن بدن خراب ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں حکومت کو مشکلات پیش آرہی ہیں۔‘‘
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ مالی مشکلات کے ازالے کے لیے صوبائی حکومت اقدامات کر رہی ہے لیکن اس بحران پر قابو پانا مرکزی حکومت کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
کوئٹہ میں مقیم معاشی امور کے ایک تجزیہ کار عبدالرحمٰن کہتے ہیں حالیہ حکومتی اقدامات سے مالی بحران پر قابو پانا ناممکن دکھائی دیتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بظاہر حکومت مالی بحران پر قابو پانے کے لیے اقدامات کے دعوے تو کر رہی ہے لیکن زمینی حقائق اس صورتحال کے برعکس ہیں۔ اس مالی بحران پر قابو اس وقت تک ممکن نہیں جب تک حکومت اپنے غیر ضروری اخراجات کم نہیں کرتی.
انہوں نے مزید کہاکہ بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے صوبے میں درجنوں وزراء اور مشیروں کی تنخواہیں اور دیگر مراعات کم کرنے پرحکومت کو توجہ دینی چاہیے ۔ شاہانہ اخراجات کی وجہ سے صوبائی محکموں کی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہے ۔ صرف تعلیم نہیں ہر شعبے میں مالی مسائل شدت اختیار کر رہے ہیں۔
واضح رہے بلوچستان میں بڑھتے ہوئے مالی بحران کی وجہ سے رواں سال سرکاری اسکولوں کے لیے ضرورت کے مطابق کتابوں کی چھپائی بھی تاحال ممکن نہیں ہوسکی.