عوامی نیشنل پارٹی چارسدہ تک محدود ہو رہی ہے ؟

شہریار محسود

پشتون معاشرے میں قوم پرست سیاست انتہائی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ باچا خان مرحوم صمد خان شہید دو ایسے نام ہے جن کا اثر جہاں پورے برصغیر کی سیاست پررہا ہے وہاں دوسری طرف پشتون تاریخ میں ان کو رومانوی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے باوجود کہ تاریخ میں باچاخان اور صمد خان کو نمایاں حیثیت حاصل تھی مگر پشتونوں کی اکثریت پر عسکریت غالب رہی کیونکہ اسی فیصد پشتون اپنے تاریخی ہیروز اور ان کے کردار کو بس اسی عینک سے دیکھتے رہے جو مطالعہ پاکستان کی چھوٹی اور جھوٹی عینک سے دکھایا گیا تھا۔ مطالعہ پاکستان سے مراد کتاب نہیں بلکہ وہ بیانیہ ہے جس کے ذریعے جھوٹ کا پرچار کیا گیا اور پشتونوں کے بہت بڑے حلقے کو جہالت  میں ڈالا گیا۔

ذاتی طور پر میری یہ حالت تھی کہ جب کہیں باچا خان یا ولی خان کا نام سنتا تو میرے لاشعور میں کانگریسی یا سور کافر (ملاؤں کی طرف سے لگایا گیا فتویٰ سور کافر) کا ایک عجیب سا منفی عکس گھومنا شروع ہوجاتا۔

باچا خان اور صمد خان اپنے پیچھے اسی سیاست کا بہت بڑا میراث چھوڑ گئے جس کو اس وقت پشتون قوم پرست سیاست میں ہر قوم پرست تنظیم اور سیاسی جماعت اپنے بیانیے میں شامل کرنے کی کوشش کررہی ہے مگر لفظ میراث میں نے اس لئے استعمال کیا کہ ایمل ولی خان صاحب کو لگتا ہے کہ باچا خان یا ولی خان کے افکار پر صرف ان کا حق ہے اور ایمل خان اس کو اپنا کاپی رائٹ سمجھتا ہے۔ البتہ وہ اپنے دادا اور پردادا کے افکار تو اپنا رہا ہے مگر ان عظیم ہستیوں کا کردار اپنانے کے لیے تیار نہیں ۔

حالیہ سالوں میں قوم پرست سیاست کو نہایت قریب سے جاننے کا موقع ملا اور میری کوشش ہوگی کہ اس حوالے سے اپنے قارئین ودوستوں کے ساتھ اپنی سوچ اور تجربات شئیر کرتا رہوں بیشک اس سے میرے کئی قریبی ناراض ہو سکتے ہیں اور کئی خوش لیکن چونکہ میری نظر میں پشتون قوم پرست سیاست پشتون معاشرے کے مستقبل میں ایک بنیادی کردار ادا کرنے والی ہے لہٰذا ان چیزوں کی نشاندھی کی جائے کہ اس وقت اس مخصوص اور محدود حلقے میں آپسی اختلاف اور نفرتیں کیوں سیاست پر حاوی ہیں ؟

کہیں خان ازم اور پسماندہ طبقات کے درمیان مٹنے والے فرق نے تو باچاخان کے فلسفے کی وراثت کے دعویداروں کو پریشان کردیا ہے ؟ یا پھر ایمل ولی خان صاحب کو وراثت تو مل گئی مگر موصوف میں اس وراثت کے سنھبالنے کی صلاحیت نہیں ہے ؟

پچھلے دنوں ایمل خان صاحب نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ، الحمدلله دا د لستوڼي ماران ما په وخت د پارټۍ نه ويستي دي۔ جس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ الحمدللہ میں نے پارٹی سے آستین کے سانپوں کو پہلے ہی نکال دیا تھا۔

بلاشبہ پاکستانی مرکزی سیاست میں سیاستدان ایک دوسرے کے لیے سخت اور غلط زبان استعمال کرتے رہے ہیں لیکن پشتون کلچر یا پشتون ولی میں کسی لیڈر کی طرف سے کم از کم میں نے پہلی بار ایسا سنا یا پڑھا۔ ایمل خان صاحب نے اس سے پہلے پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں کے حوالے سے بھی کچھ ایسے نازیبا الفاظ کہے تھے کہ جو میری نظر میں اتنے بڑے اور اہم خاندان کے چشم و چراغ کے شایانِ شان نہیں ہو سکتے۔ وہ الفاظ اس قدر نازیبا تھے کہ اس تحریر میں ان کو شامل کرنا ہی ممکن نہیں۔

ایمل خان صاحب نے جن لوگوں کے نکالنے کی بات کی وہ کئی حوالوں سے غلط کہی جا سکتی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ صوبائی صدر ہے اور یہ فیصلہ مرکزی صدر کرتاہے اور ایمل خان کس بنیاد پر ایسے کسی کو نکالنے کا دعویٰ کر سکتا ہے ؟

دوسری بات یہ ہے کہ وہ نوٹیفکیشن جس وقت جاری ہوئی تھی اس وقت اسفندیار ولی خان صاحب کی صحت کافی اچھی تھی مگر عوامی نیشنل پارٹی کو سیاست سے مکمل طور پر الگ تھلگ کردیا گیا تھا۔

تیسری بات کہ ان لوگوں کو نکالا کیوں گیا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو یہ بات ثابت کر سکتی ہے کہ ایمل خان صاحب جذبات میں آکر اپنے سیاسی کیرئیر کو داؤ پر لگا رہے ہیں اور ساتھ اپنے جماعت میں شامل لیڈرشپ کو بھی تذبذب میں ڈال رہا ہے۔

ایمل ولی خان نے حالانکہ کسی کا نام نہیں لیا لیکن ان کا مراد یقیناً افراسیاب خٹک محسن داوڑ ،بشرہ گوہر ،جمیلاگیلانی وغیرہ تھے مگر سوال یہ ہے کہ ان کو کون سے جرم پر جماعت سے نکالا گیا ؟

تو جواب بڑا سادہ ہے ان کا جرم یہ تھا کہ جب ریاستی سطح پر پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا تب ملکی سیاست کو منیج کرنے والوں کی طرف سے قوم پرست سیاسی جماعتوں سے کہا گیا کہ اپنے اپنے لوگوں کو سنبھالیں ورنہ وہ بھی شریکِ جرم مانے جائیں گے۔

اس وقت پی ٹی ایم کی حمایت پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور اے این پی کے کارکن و لیڈرشپ کررہےتھے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی صاحب نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا بلکہ وقتاً فوقتاً خود بھی حمایتی بیانات جاری کیے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے کارکنان اور لیڈرشپ کو پی ٹی ایم سے دور رہنے کےلئے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا۔

پشتون تحفظ موومنٹ بیس سالہ دہشت گردی کے جنگ سے متاثرہ مظلوم لوگوں کے احساسات اور جذبات سے ابھر کر سامنے آئی تھی۔ ان کا بیانیہ سخت اور شفاف تھا اور ایک ایسی تحریک بن کر سامنے آئی کہ جہاں حقیقت میں مظلوم کی بات کی جا سکتی تھی اور جس کو پشتون قوم بغیر کسی سیاسی نظریات کے سنتی تھی اور ساتھ دیتی تھی، تب ہی متذکرہ بالا رہنماؤں نے پارٹی لائن فالو کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ان دنوں راقم کو بھی پشتون تحفظ موومنٹ میں کافی دلچسپی تھی اور اس لحاظ سے منظور پشتین محسن داوڑ اور علی وزیر کے ساتھ نشستیں ہوتی رہتیں۔

ان دنوں ایک اعلیٰ بیوروکریٹ نے بتایا کہ محسن داوڑ کو آج ہی پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔ بقولِ ان کے بڑے خان کو فون پر کھری کھری سننے کو ملیں اور پھر وہی ہوا تھا۔

میرا ماننا ہے کہ پشتون قوم پرست سیاست میں اگر حقیقی نظریاتی کارکن کسی کے پاس ہے تو وہ عوامی نیشنل پارٹی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا لیڈرشپ بھی باچا خان کے فلسفے کی پرچارک ہے ؟

کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب عوامی نیشنل پارٹی نادیدہ قوتوں کے نشانے پر تھی اور یوں لگتا تھا کہ ان کو مزید سیاست میں کوئی سپیس نہیں دیا جائے گا مگر جب پشتون تحفظ موومنٹ سامنے ائی تب ڈاکٹرائن سرکار نے پہلے تو فاٹا یوتھ، جرگہ وغیرہ کے نام سے نوجوانوں پر مشتمل تنظیمیں بنوائیں جن میں پشتون علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے صحافی کو بھی پس پردہ کردار دیا گیا لیکن اس جذبے کے سامنے یہ ساری کوششیں ناکام ہوئیں۔ تب کہیں جاکر عوامی نیشنل پارٹی کو فیضیاب کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

دہشتگردی کے نام پر عوامی نیشنل پارٹی کے سینکڑوں کارکنوں کو ٹارگٹ کرکے شہید کردیا گیا جبکہ مرکزی لیڈرشپ بالخصوص بڑا گھرانہ حقیقت سے دور بیانات کے سوا کچھ نہیں کہہ پائی۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسفندیار ولی خان صاحب ان دنوں وزیرستان اور فاٹا کو عین ریاستی بیانیے کے مطابق ٹارگٹ بنا رہے تھے جب فاٹا کے لوگوں کو ان کی حمایت کی شدید ضرورت تھی کیونکہ یہاں کے لوگ اس جنگ کو مسلط شدہ سمجھ رہے تھے اور یہ بات اسفندیار ولی خان جیسے بڑے سیاستدان سے بہتر کون جان سکتا تھا ؟ مگر یہ حمایت ان کے کام نہیں آئی اور اے این پی کے کارکن کو چن چن کر مارا گیا۔

عوامی نیشنل پارٹی کی لیڈرشپ بالخصوص اسفندیار صاحب اور ان کے فرزند نے غار سے نکلتے ہی پشتون تحفظ موومنٹ پر نشانہ ساد لیا تھا مگر چونکہ خود ان کے کارکن کا ردعمل اس قدر مخالفت میں آیا کہ ان کو اپنے بیانات میں تبدیلی لانی پڑی۔

ایمل ولی خان صاحب نے ایک طرف پشتون نوجوانوں پر مشتمل تحریک پر الزامات لگائے تو دوسری طرف انہی کے سٹیج کا استعمال کرتے ہوئے پشتون علاقوں میں اپنے جماعت کی کمزور پوزیشن کو سنبھالنے کی کوشش کی۔

دوسری طرف پشتون قوم پرست سیاست میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔ فاٹا بالخصوص وزیرستان سے پشتون قوم پرست سیاست میں ایسی سیاسی لیڈر شپ کا اضافہ ہوا ہے جن کے نہ تو بڑے بڑے معاشی مفادات ہیں اور نہ ہی صوبائی سطح یا قومی سطح پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ نوجوانوں پر مشتمل نئی نسل کے یہ نمایندے تب ہی اپنا مقام برقرار رکھ سکتے ہیں جب تک وہ یہاں کے مظلوم لوگوں کی سوچ کی عکاسی کرتے رہے۔

پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والا یہاں کا نوجوان مشکلات میں جوان ہوا جس کی وجہ سے شعور کے اس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں وہ منطقی بات بھی کر سکتا ہے۔
دوسری جانب ایمل ولی خان صاحب کو یہ بھی لگتا ہے کہ نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ ان کی سیاست کو مزید مشکلات کا شکار بنارہی ہے کیونکہ یہ اسی لیڈرشپ پر مشتمل ہے جو کبھی عوامی نیشنل پارٹی میں اہم عہدوں پر فائز تھیں ۔

ایمل ولی خان صاحب کی سیاسی بصیرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی مرہونِ منت پی ٹی ایم اور این ڈی ایم دوبارا قریب ہورہے ہیں۔

ان تمام باتوں کو اگر جانچ کر سمجھ کر سوچا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ایمل ولی خان صاحب ذہنی خلفشار کا شکار ہے اور بجائے اس کے کہ وہ سیاسی میدان میں سوچ سمجھ کر مقابلہ کریں، اپنی جماعت کی سینئر اور سیاست کو سمجھنے والے رہنماؤں سے رہنمائی حاصل کرتے وہ اپنی جماعت کو چارسدہ تک محدود کررہے ہیں۔ چارسدہ میں بھی ان کی پوزیشن یہ ہے کہ حالیہ الیکشن میں پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کی طرف حمایت حاصل ہونے کے باوجود اپنی سیٹ ہار گئے تھے۔
نوٹ
یہ کالم پہلے وی نیوز پر شائع ہوئی ہے۔