خیبر پختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن(آر ٹی آئی) گذشتہ 17 ماہ سےممبران پورے نہ ہونے کی وجہ سے غیر فعال ہے۔
آر ٹی آئی کمیشن کا قیام معلومات تک رسائی قانون 2013 کی روشنی میں آیا ہے۔ کمیشن میں قانون کے مطابق تین کمشنرز ہونگے جن میں چیف کمشنرز ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہوگا جبکہ ایک کمشنر ریٹائرڈ جج اور ایک سماجی شعبہ سے ہوگا۔
آر ٹی آئی کمیشن مارچ2022 میں اس وقت کے چیف کمشنر ساجد جدون کے سبکدوش ہونےکے بعد سے نامکمل ہے انہوں نے بھی اپنے دور میں صرف ایک کمشنر ریاض داؤدزئی کے ساتھ کام کیا تھا۔
آخری مرتبہ کمیشن میں تین ممبران چیف کمشنر عظمت حنیف اورکزئی کے دور میں تھے،تقریبا دوسال تک کام کرنے کے بعد مارچ میں ساجد خان جدون چیف انفارمیشن کمشنر 2022 میں ریٹائر ہو گئے تھے اور کمیشن میں صرف ریاض داؤ دزئی نمبر کے طور پر رہ گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق ریاض داؤدز ئی واحد کمشنر کے طور پر13 جولائی2022 تک خدمات انجام دیتے رہے اور ریٹائر ہو گئے جس کے بعد تین روز تک کمیشن میں یک بھی کمشنر نہیں تھا۔
حکومت نے 17 جولائی2022 کو سابق بیوروکریٹ فرح حامد کی ریٹائرمنٹ کےاگلے روز چیف کمشنر معلومات تک رسائی کمیشن تعینات کر دیا تاہم اب ایک سال مکمل ہونے تک ان کےساتھ باقی دوکمشنرز میں سے ایک بھی تعینات نہیں ہے۔
قانون کے مطابق کسی بھی شہری کو جب سرکاری محکمہ معلومات فراہم نہیں کرتا تو وہ کمیشن کو شکایت جمع کرا تا ہے جس پر کمیشن عدالتی اختیار استعمال کرتے ہوۓسماعت کرتا ہے اور شہری کو معلومات فراہم کرتا ہے تا ہم یہ سماعت کرنے کیلئے کم سے کم دوکمشنرز کی موجودگی لازمی ہے۔
ساجد جدون کی مارچ میں ریٹائرمنٹ سے اب تک کمیشن میں ایک ہی کمشنر کام کر رہا ہے جس کے باعث نہ تو کورم مکمل ہے اور نہ ہی کمیشن اپنا کام کر سکتا ہے اور کمیشن عملی طور پر غیر فعال ہے۔
کمیشن کے سابق رکن پروفیسر کلیم اللہ کہتے ہیں کہ کمیشن کی جانب سے ممبران کی تعیناتی کیلئے متعدد نام بھیجے گئے ہیں لیکن حکومت تعیناتی میں سستی دکھا رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ حکومت اس کمیشن کیلئے ہر سال فنڈز مختص کرتا ہے شہریوں کی آگاہی کیلئے سیمینارز کے فنڈز بھی فراہم کئے جاتے ہیں عملہ باقاعدگی سے دفتر آتا ہے اور اپنا کام کرتا ہے لیکن کمشنرز نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی فیصلہ نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ اس کمیشن کیلئے اب سب سے بڑا چیلنج عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا ہے۔
کلیم اللہ کہتے ہیں 17ماہ سے کوئی بھی فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے شہریوں کا اس کمیشن سے اعتماد اٹھ گیا ہے جو بہت بڑا نقصان ہے،حکومت کو ایک جانب اب کمشنرز کی تعیناتی کرنی ہے تو دوسری جانب عوام کا رابطہ بھی بحال کرنا ہے تبھی شفافیت کو فروغ دیا جا سکے گا۔