اغواء ہونے والے سیشن جج جنوبی وزیرستان گھر پہنچ گئے

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے اغوا ہونے والے سیشن جج جنوبی وزیرستان شاکر اللہ مروت گھر پہنچ گئے ہیں۔

سیشن جج کے رشتہ دار اور مروت قومی جرگہ کے سربراہ اختر منیر خان نےبرطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ شاکراللہ مروت کل رات بارہ بجے کے لگ بھگ اپنے گھر پہنچ گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ کل مروت جرگہ کے عمائدین نے بھی میٹنگ کی تھی اور اس بارے میں تشویش کا اظہار کی تھا۔

انھوں نے بتایا کہ کل رات سیشن جج نے فون پر انھیں بتایا کہ وہ گھر پہنچ گئے ہیں۔

دوسری جانب سینئر صحافی نصیر اعظم محسود کے مطابق ذرائع نے بتایا ہےکہ بھاری تاوان کے عوض جج کی بازیابی ممکن ہوئی,اغوا کاروں کو جج کی بازیابی کیلئے 7 کروڑ روپے تاوان کی ادائیگی کی گئی ہے جس کے بعد جج کو بحفاظت گھر پہنچا دیا گیا.

زرائع نے مذید بتایا کہ مغوی جج کو ٹانک میں ہی رکھا گیا تھا، تاوان کی عدم ادائیگی کی صورت میں مغوی کو افغانستان منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا، ذرائع

گذشتہ روز اغوا ہونے والے سیشن جج شاکر اللہ مروت کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں وہ دعویٰ کر رہے تھے کہ انھیں طالبان نے اغوا کیا ہے۔

تاہم طالبان کی جانب سے اس واقعے کی ذمہ داری تاحال قبول نہیں کی گئی۔

ویڈیو میں سیشن جج شاکر اللہ نے کہا تھا کہ ’کل مجھے طالبان اپنے ساتھ ڈی آئی خان ٹانک روڈ سے یہاں لائے ہیں، جنگل بھی ہے اور حالت جنگ بھی ہے۔ ان کے اپنے کچھ مطالبات ہیں جب تک وہ پورے نہیں ہوں گے میری رہائی ممکن نہیں ہے۔‘

سیشن جج نے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ اور صوبائی اور وفاقی حکومت سے کہا تھا کہ وہ طالبان کے مطالبات پورے کریں اور ان کی رہائی کو ممکن بنائیں۔

سیشن جج کے اغواء کا مقدمہ بھی درج کیا گیا ۔

مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی ڈی آئی خان میں مقدمہ مغوی جج شاکر اللہ مروت کے ڈرائیورشیر علی کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں دہشت گردی سمیت دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔

مقدمے کے متن کے مطابق ڈیرہ ٹانک روڈ گرہ محبت موڑ پر جج کی گاڑی پہنچی تو 25 سے 30 ملزمان وہاں کھڑے تھے اور بھاری اسلحے سے لیس تھے جبکہ انہوں نے موٹر سائیکلوں سے روڈ بلاک کر رکھا تھا۔

ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ ملزمان نے گاڑی کو روک کر فائرنگ کی، فائرنگ سے جج اور ڈرائیور گاڑی سے اتر گئے، مبینہ دہشتگردوں نے جج کے ڈرائیور کی آنکھ پرکپڑا باندھا اور گاڑی میں سوار ہوگئے۔

متن کے مطابق 40 منٹ کے بعد گاڑی کو روکا تو گاڑی جنگل پہنچ چکی تھی، جج پینٹ شرٹ پہنے ہوئے تھے تو ملزمان نے گاڑی میں سے شلوار قمیض نکال کر ان کو پہننے کو کہا۔

مقدمے کے متن کے مطابق جج نے لباس تبدیل کیا، بعدازاں دہشتگردوں نے گاڑی کو آگ لگادی، ڈرائیور کو رہا کرکے دہشتگردوں نے اپنا پیغام پہنچانے کو کہا کہ وہ اپنے مطالبات پیش کریں گے اگرپورے کیےگئے توجج کو رہا کردیں گےجبکہ مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں سنگین نتائج بھگتنا ہونگے، بعدازاں دہشتگرد جج کو موٹرسائیکل پر لے کر جنگل کی طرف روانہ ہوگئے۔